223

صدارتی نظام

تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے ایک بار پھر صدارتی نظام کی بات کی ہے کہ صدارتی نظام ایک مستحکم نظام ہے چونکہ اس وقت ساری قوم کی نظریں آرمی چیف کی تقرری کی طرف لگی ہوئی ہیں اس لیے اس بات کا نوٹس نہیں لیا گیا لیکن ایک بات واضح ہوتی ہے کہ عمران خان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ کہ موجودہ نظام ناکام ہو چکا ہے یہ ڈیلیور نہیں کر پا رہا اس لیے وہ نظام بدلنے کے حق میں ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت کی بات کرتے ہیں وہ قوم سے واضح دو تہائی اکثریت والا مینڈیٹ مانگ رہے ہیں اگر انھیں دو تہائی اکثریت مل جاتی ہے تو وہ لازمی طور پر صدارتی نظام کی طرف جائیں گے اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو پارلیمانی جمہوری نظام ہمارے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا ہمارے ہاں اسی نظام کے تحت متعدد جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں لیکن عوام کسی جماعت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور نہ ہی کوئی جماعت عوامی توقعات پر پورا اتر سکی ہے کوئی سیاسی جماعت ڈیلیور نہیں کر پائی اس کا مطلب ہے کہ نظام کے اندر کہیں خرابی ہے اس انتخابی نظام کو بااثر افراد نے ہائی جیک کر رکھا ہے اب تو حلقوں پر لوگوں کے قبضے ہو چکے ہیں ان تین چار لوگوں یا خاندانوں جن کی اس حلقے میں اجارہ داری ہے کے علاوہ کوئی نہ تو الیکشن کا سوچ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی الیکشن جیت سکتا ہے سیاسی جماعتیں ان ہی الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہوتی ہیں اور پھر یہ اپنے حلقوں کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں وہ اپنے حلقوں میں اپنی مرضی کی انتظامیہ اور پولیس لگواتے ہیں اور اپنی من مانی کرتے ہیں یہ الیکٹ ایبلز اپنی جماعتوں کو بھی بلیک میل کرتے ہیں سیاسی جماعتیں بھی اپنا اقتدار بچانے کے لیے ان کو ہر حال میں خوش رکھتی ہیں اگر صدارتی نظام ہوتا تو نہ رجیم چینج ہوتا نہ سندھ ہاوس میں ہارس ٹریڈنگ کی منڈی لگتی ہمارے پارلیمانی جمہوری نظام کی خرابیوں نے لوگوں کو سیاست سے ہی بدظن کر دیا ہے ہمارے ہاں جو دو تین بار صدارتی نظام رہا ہے حالانکہ وہ فوجی آمریتوں کا نظام تھا لیکن اس نے پارلیمانی نظام سے بہتر ڈیلیور کیا ہے ہمارے پاس ترکی کی مثال موجود ہے انھوں نے بھی پارلیمانی نظام کو خیر باد کہہ کر صدارتی نظام کو اپنا لیا ہے اور وہ استحکام کی جانب بڑھ رہے ہیں اور وہ کامیابی کے ساتھ ڈلیور بھی کر رہے ہیں ہمارے ہاں ہر سیاسی جماعت حکومت میں ہونے کے باوجود کہتی ہے کہ ہمارے پاس اختیارات نہیں تھے اہم فیصلے کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں مطلوبہ تعداد نہیں تھی ہم اپنے منشور پر عمل نہ کروا سکے اگر صدارتی نظام ہو تو ان تمام خرافات سے جان چھڑوائی جا سکتی ہے پارٹی سربراہ یا پارٹی جس کو بھی اپنا صدارتی امیدوار نامزد کرے اسے پورے ملک سے ووٹ پڑیں جس جماعت کو جتنے ووٹ پڑیں اس تناسب سے اسے پارلیمنٹ میں نشستیں آلاٹ کر دی جائیں اس سے ایک تو فیڈریشن مضبوط ہو گی علاقائیت سے چھٹکارا مل جائے گا حلقوں کے روائیتی امیدواروں بدمعاشوں رسہ گیروں سے جان چھوٹ جائے گی ہر سیاسی جماعت سسٹم کو چلانے کے لیے سمجھدار سیاستدانوں ٹیکنوکریٹس پروفیشنل لوگوں کو اسمبلی کا ممبر نامزد کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی پھر کسی کو وزیر خزانہ نہیں ڈھونڈنا پڑے گا آپ اپنی مرضی کی ٹیم بنا سکیں گے 5سال کے بعد آپ قوم کو جوابدہ ہوں گے اور جو ڈلیور کرے گا وہ آئیندہ بھی جیت جائے گا اب اکثریتی ووٹ لینے والی جماعت فنی بنیادوں پر اپوزیشن میں بیٹھی ہوتی ہے اور اقلیتی ووٹ لینے والی جماعت زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے حکومت بنا رہی ہوتی ہے قومی سیاست کی نالیوں سولنگ اور گلی محلے کے سوک مسائل سے باہر نکل آئے گی بریانی اور قیمے والے نان کھلا کر ووٹ حاصل کرنے والوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی لوگ اجتماعی سوچ کو ووٹ دیں گے مقامی مسائل کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والے اراکین اسمبلی مقامی مسائل کے حل میں ہی الجھے رہتے ہیں وہ قومی سیاست میں اپنا وہ کردار ادا نہیں کر سکتے جس کا قومی سیاست تقاضہ کر رہی ہوتی ہے صدارتی نظام پر باقاعدہ سنجیدگی کے ساتھ ڈائیلاگ ہونے چاہئیں اور اتفاق رائے کے ساتھ ہمیں سسٹم تبدیل کر لینا چاہیے