مجھے آج بھی یاد ہے زندگی میں جب فرصت محسوس کی جاتی، چھوٹے بہن بھائیوں کو انتظار کی کرسی پر لٹکی گردنیں مرجھائے چہرے بیٹھا دیا جاتا، پھر باری باری بلاتے جاتے کھلونا اسٹتھو اسکوپ سے ان کا چیک اپ کیا جاتا، فالتو کاغذوں پر جھوٹا نسخہ لکھ کر تھما دیا جاتا۔ یہ کھیل کم و بیش ہر بچے نے کھیلا اس شعبہ زندگی میں کشش ہی اتنی رکھی گئی ہے۔ مسیحا درد کا درماں، گھاؤ کا مرہم کسے شوق نہیں بننے کا۔
شروع دن سے یہی سنا بہت پڑھنا پڑتا ہے، مرہم بننے کے لیے آگ پر چڑھ کر پکنا پڑتا ہے، جو تپیش سے ڈر گئے انہوں نے راستے بد لیئے کچھ جنون کے مارے ایسے بھی ہیں آگ پر چڑھ کر پکنے بیٹھ بھی گئے۔ پڑھائی پڑھائی پڑھائی، خاندان میں خوشیاں آئیں مگر وہ کتاب میں، سوگ اترئے وہ کتا ب میں، تعلیمی زندگی کے بارہ سال بیت گئے تعلیمی بورڈ آپ کو تمغہ ڈال کر سلوٹ دیتا ہے، پھر آپ کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے میرٹ کے نام پر ایک ٹیسٹ میں بیٹھایا جاتا ہے۔ عقل مانتی ہے ہونا چاہے پر میرٹ پر ۔ مگر جب آپ اس ٹیسٹ میں سے نکلتے ہیں۔
’’ You are total faill…. try again‘‘ کتنا خوبصورت مذاق ہے ہمارے ٹیلنٹ کے ساتھ اگر اس کی حقیقت کھولیں تو پتا چلتا ہے۔ میرٹ کے نام پر ہماری کریم ضائع کرنے کی سازش ہے مجھے یہ سمجھ نہیں لگتی ایک بچی جو پورے فیڈرل کے پری میڈیکل میں ٹاپ کر کے آئے، پنجاب بورڈ ایک بچے کو ٹاپر قرار دے رہا ہو اور ایک انٹری ٹیسٹ کیسے کہہ سکتا ہے تم ڈاکٹر نہیں بن سکتیں تم میرٹ پر نہیں ہو، ایک بچہ جو بارہ سالہ تعلیمی کیرئیر میں ہمیشہ وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا رہا ہو آپ کا NTS (national test service) کیسے کہہ سکتا ہے تم فیل ہو، کیا ہمارہ نظام ِ تعلیم اتنا ناقص اور فرسودہ ہوچکا ہے؟ یا بوٹی مافہیا اتنا پروان چڑھ چکا ہے؟ کہ ہمیں پتا ہی نہیں کون بچہ ذہین ہے یا ہمارے تعلیمی بورڈ میں اتنی کم اہلیت کے ملازمیں ہیں؟ جو بچوں کو (۹۴) چورانے فیصد نمبر دے کر سبز باغ دیکھاتے ہیں، یہ فیصلہ NTS ان کی اہلیت سے کئی گنا زیادہ معلوماتی پرچہ لے کر کرے گا تم قابل ہو یانہیں، سوال یہ ہے پھر حکومت بورڈ کے نالائق ملازمین کیو ں پال رہی ہے، غریب عوام پر اخراجات بڑھانے کے لیئے؟ خرابی کہاں ہے؟ ہمارے بچوں میں یا نظام میں ؟ یا کہیں بھی نہیں۔
صرف ہمارے صاحبِ اختیار کے دماغوں میں جو تعلیم پر پیسہ لگانے کے بجائے آف شورز کمپنیز چلارہی ہے، جائیدادیں بنا رہی ہیں، یا دھرنے اور ریلیاں نکالنے پر قوم کا پیسہ بے دریغ لگا رہی ہیں۔ جاپان کی مثال لیں وہاں ایک قابل بچی کو گاؤں سے شہر لانے لیجانے کے لیے پوری ایک ٹرین کا بندو بست کیا گیا کیوں۔۔؟ کیوں کہ اس گاؤں میں سفر کی سہولت نہیں حکومت اپنا ٹیلنٹ ضائع کرنے کے بجائے ریلوے کا خسارہ برداشت کر رہی ہے۔ یہ ہوتی ہیں حکومتیں ، جو پیٹ سے نہیں دماغ سے سوچتی ہیں اور ہمارے ہاں ماں باپ، بچے اپنے تعلیمی اخراجات برداشت کر کے نمبر لے کر آتے ہیں سیٹیں نا ہونے کی وجہ سے نام نہاد میرٹ ٹیسٹ بنا کر ایک طرف بچوں کو مسترد کیا جارہا ہے درپردہ ایک اکیڈمیز مافیا کی پرورش کی جارہی ہے، اس کے پیچھے ایک دھندا ہے، میری بھولی عوام کو میرٹ کے نام پر انصاف کا جھانسہ دے کر اپنا بزنس چلانا ہے۔
میرٹ آیا اس میں کشش پیدا کرنے کیلے تیاری کے لیے اکیڈمیاں کھولی گئیں۔ بچوں سے ہزاروں فیسیں لے کر لاکھوں بچوں کو داخل کیا گیا۔ بچے لاکھوں میں سیٹیں سینکڑوں میں۔ ہر یونیورسٹی میں داخلے کے لیے NTS کی تیاری کریں، ہرگورنمٹ جاب کیلیےNTS کی تیاری کریں، آخر نیب NTS کے نام پر ہونے والی کرپشن کب دیکھے گئی جس کی اڈیٹ میں سب گھپلا ہے۔ اور میرے ملک کا ٹیلنٹ اس NTS سے ٹکرا کر خود کشی کر رہا ہے۔ میری نام نہاد صاحبِ اختیار سے ہاتھ جوڑ کر اپیل ہے ہمارے تعلیمی بورڈز کو آگ لگا کر بند کر کے کم از کم بورڈ کے اخراجات سے نجات دے اور اپنے NTS مافیا سے کمائی کرئے۔ کل میری نام نہاد فارغ الذہین حکومت نے میڈیکل کے لیے انٹری ٹیسٹ لیا کیا کہنے۔۔ بورڈز کے ٹاپرز کو فیل قرار دے کر ایک جانب کر دیا گیا ۔۔ تالیاں پیش کرتا ہوں اپنے پاکستان کے اس نظام کو۔