نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل میک کاسٹر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے تین منی اسکرٹ پہنے، 1972 میں، کابل کی گلیوں میں گھومتی افغان خواتین کی تصویر رکھی، اور کہا کہ آج شٹل کاک برقعہ پہننے والیاں گزشتہ کل کو مکمل مغربیت اختیار کر چکی تھیں . امریکہ افغانستان کو “جمہوری” لبادہ پہنا سکتا ہے. ٹرمپ نے اسکے باوجود ” نیشن بلڈنگ” کی تھیوری کو پرے پھینکا اور موقف اختیار کیا کہ مجھے غرض نہیں کہ افغانستان کے لوگ مغربی انداز زندگی اختیار کریں یا نہ کریں مجھے وہاں سے دہشت گردی کی برآمدگی برداشت نہیں.
بنیادی طور پر اب افغانستان میں امریکہ کے دو ہی مقاصد ہیں.
1. افغانستان، علاقائی بد امنی کا سبب نہ بنے.
2. افغانستان دہشتگردوں کا محفوظ ٹھکانہ نہ بنے.
ان دونوں مقاصد کے سامنے سب سے بڑی دیوار پاکستان نہیں ہے بلکہ چین، روس اور ایران ہیں. پاکستان کو تڑی اس لئے لگائی کہ کمی کمینوں کو گالی دینا آسان ہوتا ہے. چین، روس اور ایران کی پالیسیاں مکمل طور پر ایک جیسی نہیں ہیں مگر انکے ممکنہ نتائج امریکہ کے لئے ایک جیسے ہی ہیں.
چین
چین کا مقصد واضح ہے کہ وہ امریکہ کو صرف افغانستان میں انگیج رکھنا چاہتا ہے تاکہ امریکہ کے سر پر مالی بوجھ قائم رہے، اسکی معیشت دوبارہ ٹیک آف نہ کر سکے. اس دوران وہ اپنی نیوی کو مضبوط سے مضبوط کر سکے اور اپنی معیشت کو سی پیک سے مزید توانا کر سکے جو اب زوال کی جانب گامزن ہوچکی ہے. نیوی دنیا کی پاور وار میں سب سے اہم ترین پہلو ہے. یاد رکھیں امریکہ دنیا کی تاریخ کی واحد سپر پاور ہے جو دنیا کے تمام اوشنز اور انکے روٹس پر قابض ہے. دنیا میں کہیں بھی فوج اور وار ہیڈز بھیجنے ہوں، امریکہ پہنچا سکتا ہے اور دوسرے ممالک کو ایسا کرنے سے روک بھی سکتا ہے.
روس
روس ایک ریجنل پاور سے بڑھ کر نہیں ہے. حالانکہ وہ دکھاوا کچھ زیادہ کرتا ہے اور مغربی دنیا جان بوجھ کر اس دکھاوے کو برداشت کرتی ہے. تیل کی قیمتوں پر منحصر اسکی معیشت اسکی طاقت کو “ان چیک” رکھتی ہے. روس امریکہ کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ ایک طاقت کے اس خطے میں موجود ہے آور امریکہ اسکے بغیر منہ اٹھا کر ہر پالیسی پر عمل نہیں کر سکتا. روس طالبان کی مدد کر رہا ہے اس لئے نہیں کہ اب طالبان کی شریعت کا وہ قائل ہوچکا ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں امریکہ کا نقصان ہے.
ایران
ایران کی پالیسی کے دو اہم فیکٹرز ہیں. امریکہ کو زک پہنچانا اور افغانستان میں شیعہ اثر و رسوخ کو مکمل خاتمے سے بچانا. ایک طرف ایران طالبان کی مدد کر رہا ہے دوسری جانب افغان حکومت میں بھی اپنے لوگ ڈالنے کی کوششیں کر رہا ہے.
پاکستان
پاکستان کے مقاصد دو ہیں. اول افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ طالبان کے ذریعے قائم رکھنا. دوم بھارت کے اثر و رسوخ کو کم سے کم رکھنا. پاکستان مجموعی طور پر دونوں محاذوں میں فی الحال ناکام ہے. لیکن مستقبل میں حالات پلٹا کھا سکتے ہیں. طالبان سے مستقبل میں مذاکرات کا سارا دارومدار پاکستان پر نہیں ہے مگر پاکستان مضبوط ترین فریق ہے. اس لئے امریکہ پاکستان کو فیوچر میں بھی اگنور نہیں کر سکتا.
امریکہ
امریکہ اپنے دو مقاصد کیسے حاصل کریگا یہ واضح نہیں ہے. عراق سے فوراً فوج نکالنے اور اسکے نکالنے کا ٹائم فریم دینے کی وجہ سے ایک تو داعش نمودار ہوئی دوسرا ٹائم فریم دینے کی وجہ سے داعش اور دیگر جنگجوؤں کو موقع مل گیا کہ وہ امریکہ افواج کے جانے کا انتظار کریں.
اس بار ٹرمپ نے فوجیوں کی تعداد اور افغانستان سے نکلنے، دونوں کی تعداد اور ٹائم فریم دینے سے صاف انکار کیا ہے. ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق تقریباً 3900 فوجیوں کی کمک افغانستان پہنچے گی. نیٹو کمانڈر نکولسن اس پر خوش ہیں. وزیر دفاع جنرل میٹس بھی اس اضافے پر خوش ہیں. لیکن ایرک پرنس اور اسٹیو بینن ہر گز خوش نہیں ہیں.
ایرک پرنس بدنام زمانہ ” بلیک واٹر” کے سابق سربراہ ہیں اور امریکہ کے سب سے بڑے دفاعی کنٹریکٹر ہیں. انکی خواہش تھی کہ ٹرمپ مزید ہزاروں پرائیویٹ فایٹرز کو افغانستان جانے دے. پہلے ہی افغانستان میں 26 ہزار پرائیویٹ جوان موجود ہیں. عراق میں تو پرائیویٹ آرمی ایک وقت میں ایک لاکھ تک جا پہنچی تھی. لیکن دونوں ممالک میں ان کی کارکردگی مایوس کن رہی. اس لئے ٹرمپ کی فتح کے ماسٹر مائنڈ قرار دیئے جانے والے اسٹیو بینن جنھیں حال ہی میں وائٹ ہاؤس سے فارغ کیا گیا ہے، انکی لابنگ کے باوجود پرائیوٹ آرمی کی تعداد نہیں بڑھائی گئی.
ٹرمپ نے ایک اور اہم فیصلہ یہ کیا ہے کہ اب وائٹ ہاؤس ٹارگٹڈ آپریشنز کی منظوری نہیں دے گا بلکہ افغانستان میں موجود جنرلز پینٹاگان سے مل کر فیصلے کرینگے. پاکستان کو ملنے والی دھمکی میں یہی بات پوشیدہ ہے کہ اب حقانی نیٹ ورک کے سیف زون پر براہ راست حملہ کیا جا سکتا ہے.
بھارت کا رول صرف مال پھینکنے اور پاکستان چین کو ڈرانے کے لئے ہے. بھارت اپنا کام کامیابی سے کر رہا ہے.
آگے کیا ہوگا
امریکہ کے جانے کا کوئی موڈ نہیں ہے. افغانستان میں بیٹھ کر وہ چین، پاکستان، ایران اور روس کے مفادات پر ضرب لگا کر اپنے لئے با عزت بارگیننگ کر سکتا ہے. میرا خیال ہے کہ امریکہ کسی طرح چین میں دہشت گردی کا بیج بونا چاہئے گا. سنکیانگ آسان آپشن ہوسکتا ہے. پوٹن کے اقتدار کو کمزور کرنا، پاکستان کو کچھ لو کچھ دو پر قابو رکھنا اور ایران سے دشمنی برقرار رکھنا یہ سب امریکی اہداف ہونگے.
جہاں تک امداد کی بات ہے تو 1992 سے 2001 تک پاکستان کو ایک سینٹ بھی فوجی امداد امریکہ نے نہیں دی. اسکا نقصان امریکہ کو یہ ہوا کہ پاکستان نے اپنے میزائل اور ایٹمی ٹیکنالوجی شمالی کوریا، لیبیا، ایران بیچنا شروع کر دی. یاد رہے کہ 1962 میں امریکہ نے ایوب خان کو 4 ارب ڈالر کی امداد دی تھی. آج تک اتنی زیادہ فوجی امداد امریکہ نے پاکستان کو کبھی نہیں دی.
پاکستان کے لئے کیرٹ اینڈ سٹک پالیسی جاری رہے گی. امریکہ زیادہ ڈنڈے مارنے اور ہم گاجر بڑھانے کا مطالبہ کرتے رہنگے.
اس پاور گیم میں بے گناہ مرتے رہنگے جن پر پاکستان، افغانستان اور ایران شہادت کی چادر زبردستی چڑھاتے رہنگے.
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
span.s2 {font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’}