230

گورکھ دھندا

کچھ سمجھ نہ آئے خدا کرے والا معاملہ ہے کوئی پتہ نہیں چلتا کون کس کے ساتھ ہے آج کے وفادار اگلے ہی روز بے وفا ہو جاتے ہیں رات کو جو ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ہوتا ہے دن چڑھتے ہی وہ ملک دشمنی میں بدل جاتا ہے چند ماہ پہلے جو محب وطن ہوتے ہیں وہ اچانک غدار ہو جاتے ہیں اور جو غدار قرار دیے جاتے ہیں وہ پتہ چلتا ہے محب وطن نکلے ہیں ابھی عوام ایک بات پر اعتماد کر نہیں پاتے وہ اپنا مائینڈ بنا رہے ہوتے ہیں کہ اچانک بیانیہ بدل جاتا ہے لوگ نئی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو اتنی دیر میں پھر کوئی نیا چن چڑھا ہوتا ہے عوام کس کی بات پر یقین کریں اور کس کی بات کو رد کریں کون جھوٹا ہے کون سچا ہے اس میں تمیز کرنامشکل ہی نہیں ناممکن سا ہو گیا ہے جس طرح یہ پتہ نہیں چل رہا کہ ملک وقوم کے مفاد میں کیا بہتر ہے کیا نہیں اسی طرح کنفویژ خبروں کا بھی سیلاب آیا ہوا ہے کچھ پتہ نہیں چلتا کون سی خبر سچی ہے کون سی جھوٹی ہے کس تجزیہ نگار کی بات پر یقین کیا جائے کس کی بات کو اگنور کر دیا جائے میڈیا کا کونسا ادارہ حق پر ہے کون ڈی ٹریک ہو چکا کون قومی خدمت کر رہا ہے اور کون اپنے مفاد کے لیے کھیل رہا ہے کل جن تجزیہ نگاروں اینکر پرسنز کو ملک دشمن قرار دے کر ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جا رہے تھے ان پر پروگرام کرنے پر پابندی تھی اچانک پتہ چلتا ہے کہ سب کچھ بدل چکا ہے ان کے پروگرام بھی دوبارہ شروع ہو جاتے ہیں ان کے کیس بھی کھوہ کھاتے چلے جاتے ہیں اور ان کی باتیں بھی بدل جاتی ہیں جونہی منظر نامہ تبدیل ہوتا ہے تو جو لوگ تنقید کر رہے ہوتے تھے اب ان پر تنقید ہو رہی ہوتی ہے اچانک ان کی باری شروع ہوجاتی ہے ان پر لعن طعن کا سلسلہ چل نکلتا ہے اب ان پر مقدمات کی باری ہے پچھلے دور میں جن میڈیا ہاوسز پر برے دن آئے ہوئے تھے آج کل ان کی موجیں لگی ہوئی ہیں اور جو پچھلے دور میں موجیں کر رہے تھے آج کل وہ امتحان سے گزر رہے ہیں کبھی جماعت اسلامی بی ٹیم ہوا کرتی تھی پھر چوبرجی کے پاس رہنے والے آنکھ کا تارا ہوا کرتے تھے اب کہیں نظر نہیں آتے کبھی طاہر القادری بھی بڑے کام کے بندے تھے آج کل چپ کے روزے سے ہیں ایک وقت تھا جب لوگ ریاست پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرلیتے تھے اور اسی کو سچ سمجھا جاتا تھا جس کا اشارہ ادھر سے ہوتا تھا پھر نہ جانے کیوں اور کس نے ابہام پیدا کرنے شروع کر دیے۔

پہلے پیپلزپارٹی نے لوگوں کو متنفر کرنا شروع کیا پھر مسلم لیگ ن نے غلط ذہن سازی پر دن رات ایک کر دیا اور آج کل عمران خان یہ کام کر رہے ہیں اس کی نوبت کیوں آئی یہ بدگمانیاں کیوں پیدا ہونا شروع ہوئیں اس پر سوچنا بنتا ہے بدقسمتی سے ریاست کا بیانیہ بھی سیاستدانوں جیسا ہو گیا ہے اب عوام تذبذب کا شکار ہیں کہ پہلے والے جھوٹے تھے یا اس کے بعد آنے والے جھوٹے تھے یا دونوں کے بعد آنے والے جھوٹے ہیں دونوں کو جھوٹے کہنے والے کل سچے تھے یا آج سچے ہیں یا پھر سارے سچے ہوتے جا رہے ہیں یا سارے جھوٹے ہیں اللہ ہی جانے کون بشر ہے اتنی کنفیوژن زندگی میں نہیں دیکھی جتنی آج کل ہم بھگت رہے ہیں ایک دور تھا جب پیپلز پارٹی سب سے زیادہ محب وطن جماعت تھی پھر پتہ چلا کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا تو غدار وطن کوئی ہو ہی نہیں سکتا اس کے خلاف بھرپور تحریک چلائی گئی اور پھر بھٹو کا نام لینا بھی گناہ سمجھا جانے لگا پھر پتہ چلا کہ اس کی بیٹی بے نظیر بھٹو صیح ہے بھٹو کا داماد صیح نہیں پھر پتہ چلا نہیں ایسی کوئی بات نہیں آصف زرداری نے تو پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر پاکستان بچا لیا ہے اس جیسا محب وطن کون ہو سکتا ہے پہلے میاں نواز شریف اس ملک کی تقدیر تھا اور بے نظیر سیکورٹی رسک پھر ہر دو آڑھائی سال بعد کبھی بے نظیر محب وطن بن جاتی کبھی نواز شریف محب وطن ٹھرتے پھر اچانک پتہ چلا کہ نواز شریف جیسا غدار اور کوئی نہیں پھر پتہ چلا کہ ملک تو کھوکھلا ہو چکا دونوں چور ہیں دونوں نے ملک لوٹ کر بیرون ملک اثاثے بنائے ہیں دونوں اس ملک میں صرف لوٹ مار کرنے آتے ہیں دونوں کا احتساب ہونا چاہیے پھر احتساب سے کسی اور کا جنم ہو گیا پھر این آر او سے سارے نیک پاک قرار پا گئے اور سب نے آئیندہ سے اچھے بچے بن کر افہام وتفہیم سے چلنے کی قسم کھا لی جمہوریت کا بول بالا کرنے کے لیے میثاق جمہوریت بھی کر ڈالا پھر ایک ایک باری کے بعد ہی کھوٹ آگئی پھر سب پیا کے من کو بھانے کے لیے تگ ودو میں لگ گئے لیکن پیا کا دل کسی اور پہ آگیا ایک بار پھر بڑی شدومد کے ساتھ لوٹا ہوا مال نکلوانے کی مہم شروع ہوئی احتساب کا قانون بڑا موثر ہوا اور بڑے بڑے گرفت میں آنا شروع ہوگئے پھر مبظر نامہ بدلا تو پتہ چلا کہ کڑے احتساب کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں نہیں چل پا رہیں پھر احتساب کو گرم سے نرم کر دیا گیا کل تک جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند اور عدالتوں میں پیشاں بھگتنے والے آج کل بادشاہ بنے ہوئے ہیں اور کل کے بادشاہ آج کل مختلف انواع واقسام کے مقدمات بھگت رہے ہیں اقتدار پر براجمان آج کے حکمران پورے زور وشور کے ساتھ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور کل کے حکمرانوں کوآج جن مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا وہ کہہ رہے ہیں ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ کل والے حق پر تھے یا آج والے حق پر ہیں ہر کوئی اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے پوری طاقت کے ساتھ شور مچا رہا ہے اور ہمارے حق سچ کا معیار صرف یہ ہے کہ زیادہ لوگ کون اکھٹے کر سکتا ہے جو زیادہ لوگ اکھٹے کر لے وہ حق پر ہے حقیقت یہ ہے کہ اس غیر یقینی کی صورتحال میں سب مشکوک دکھائی دے رہے ہیں سب کی کمزوریاں ہیں ہر کوئی اپنی کمزوریاں چھپا کر دوسرے کی خامیاں دکھانا چاہتا ہے کیا ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ ہم کہاں پہنچ چکے ہیں اور اس کا انجام کیا ہوگا ہم نے پوری دنیا میں اپنے آپ کو تماشہ بنا رکھا ہے کیا ذمہ دار ایٹمی طاقتیں ایسی ہوتی ہیں کیا دنیا کی ٹاپ ٹین پوزیشنوں پر فعال کرنے والی قوموں کو ایسے تماشے زیب دیتے ہیں اہل علم ودانش اور صاحب الرائے لوگ اس پر ضرور غور کریں اور فیصلہ کرنے والی قوتیں اس ماحول سے ملک وقوم کو نکالنے کے لیے حل تلاش کریں۔