226

نا اہلیت کا کھیل

عمران خان کو الیکشن کمیشن نے نا اہل قرار دے دیا ہے کچھ قانونی ماہر کہتے ہیں یہ نااہلی نہیں انھیں ڈی سیٹ کیا گیا ہے لیکن اگر اس پر متعلقہ عدالت سزا دیتی ہے تو پھر وہ نااہل ہوں گے موجودہ صورتحال میں وہ آنے والے جنرل الیکشن میں حصہ لے سکیں گے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انھیں پی ڈی ایم کی حکومت کی خواہش پر نااہل کیا گیا ہے یا ان سے کوئی بھول چوک ہوئی ہے کئی ن لیگیے کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی نا اہلی ہے جیسے میاں نواز شریف کو پانامہ کیس میں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کیا گیا تھا حقیقت یہ ہے کہ جس بنیاد پر عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں دھرا جا رہا ہے اس میں سب کچھ قانون کے مطابق ہوا ہے عمران خان نے توشہ خانہ سے جو تحائف لیے اس کی قیمت ادا کی لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اراکین اسمبلی ہر سال الیکشن کمیشن کو اپنے گوشوارے جمع کرواتے ہیں اور آپ نے یہ خبریں بھی اکثر پڑھی ہوں گی کہ گوشوارے جمع نہ کروانے پر فلاں فلاں رکن اسمبلی کی رکنیت معطل ہو گئی ہے جب وہ گوشوارے جمع کروا دیتا ہے تو از خود وہ بحالی بحال ہو جاتی ہے اس کیس میں عمران خان نے دانستہ یا نادانستہ طور پر الیکشن کمیشن کو جمع کروائے گئے گوشواروں میں ان تحائف کا ذکر نہ کیا بلکہ تاخیر سے کیا جس پر ان کے خلاف ریفرنس دائر ہو گیا اور انھیں الیکشن کمیشن نے نا اہل قرار دے دیا عمران خان کو اندازہ تھا کہ اس کے خلاف کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے اس لیے وہ تسلسل کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر پر تنقید کر رہے تھے وہ بارہا کہہ چکے تھے کہ چیف الیکشن کمشنر پارٹی بن چکے ہیں وہ ہمارے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں عدالتی روایات کے مطابق اگر کوئی فریق کسی جج پر عدم اعتماد کر دے تو وہ کیس نہیں سنتا وہ از خود کیس سے دستبردار ہو جاتا ہے چیف الیکشن کمشنر کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اس کیس کا فیصلہ خود کرنے کی بجائے چاروں ممبران سے کرواتے خود کیس سے الگ ہو جاتے اب عدالت میں یہ موقف بھی اختیار کیا جائے گا کہ چیف الیکشن کمشنر جانبدار تھے انھوں نے اپنی ذاتی رنجش کے باعث عمران خان کو نا اہل قرار دیا ہے دوسری جانب عمران خان کی نااہلی پر ساری پی ڈی ایم دھمالیں ڈال رہی ہے مریم نواز شریف کا توکہنا ہے صرف نااہلیت نہیں عمران خان کو گرفتار بھی ہونا چاہیے عمران خان کو گرفتار کروانا شریف خاندان اور خصوصی طور پر مریم نواز کی دیرینہ خواہش ہے جس کا وہ متعدد بار اظہار کر چکی ہیں مولانا فضل الرحمن کا فرمانا ہے کہ ہم نے عمران کو حکومت سے نکالا تھا اب سیاست سے بھی نکالیں گے رانا ثناءاللہ تو سب سے آگے ہیں وہ یہ کریڈٹ خود لینا چاہتے ہیں کہ یہ سارا کچھ میری وجہ سے ہوا ہے میں نے عمران خان کو قابو کر لیا ہے پیپلزپارٹی والے بھی پیچھے نہیں رہے پی ڈی ایم کو عمران خان کی نا اہلی اپنے کھاتے میں نہیں ڈالنی چاہیے بلکہ اسے الیکشن کمیشن کی ضابطے کی کارروائی تک محدود رہنے دینا چاہیے وزیر داخلہ کی جانب سے یہ کہنا کہ لوگ مٹھائیاں تقسیم کریں شکرانے کے نوافل ادا کریں اور الیکشن کمیشن کے ممبران کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں یہ ساری چیزیں پی ڈی ایم کو پارٹی بناتی ہیں اور ظاہر کرتی ہیں کہ پی ڈی ایم حکومتی اثر ورسوخ کے ساتھ عمران خان کو قابو کر رہی ہیں چونکہ پچھلے دونوں ضمنی انتخابات کے نتائج واضح کرتے ہیں کہ عمران خان عوامی عدالت میں اور سیاسی میدان میں پی ڈی ایم کے قابو میں آنے والا نہیں اس لیے اسے کسی اور طریقے سے قابو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے عمران خان اس وقت شہرت کی بلندیوں پر ہےدیکھا گیا ہے کہ بغیر کسی کال کے عمران خان کی نا اہلی کے فیصلہ پر ملک بھر میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے لاہور میں ہو کا عالم تھا سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی لوگوں میں ایک انجانا خوف تھا کہ نہ جانے اب کیا ہو جائے اسلام آباد فیض آباد چوک اور بارہ کہو میں جھڑپیں اور شیلنگ نے حالات اور سنگین کر دیے کراچی میں مظاہرین نے سڑکیں بلاک کر کے ٹریفک جام کر دیا لوگ الیکشن کمیشن کے باہر دھرنا دے کر بیٹھ گئے یہ موقع تھا کہ عمران خان اس موقع سے فائدہ اٹھاتے اور لانگ مارچ کا آغاز کر دیتے اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان کے قانونی مشیروں نے انھیں مشورہ دیا ہے کہ آپ کو ہائیکورٹ سے ریلیف مل جائے گا تھوڑا انتظار کریں یا کہیں سے یقین دہانی کروائی گئی ہے جس پر انھوں نے مظاہرین کو پر امن طور پر گھر جانے کی ہدایت کی ورنہ جیسا ماحول بن رہا تھا آج صورتحال مختلف ہوتی آج پورا ملک مفلوج ہوتا وفاقی حکومت کو اسلام آباد سنبھالنا مشکل ہو جاتا اور نہ جانے حالات کیا رخ اختیار کر جاتے لیکن عمران خان نے احتجاج کی بجائے عدالت میں جانے کا آپشن اختیار کیا اب عدالت میں انھیں کس حد تک ریلیف ملتا ہے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان اور نواز شریف کو برابر میں لانے کے لیے یہ سارا کچھ کیا جا رہا ہے دونوں نااہل ہو چکے اب عمران خان سے کہا جائے گا کہ آپ کی جماعت ایوان میں جائے اور یہ قانون سازی کرکے تمام کی نااہلی ختم کی جائے اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن یہ طے ہو چکا ہے کہ عمران کو کٹ ٹو سائز کرنا ہے میاں نواز شریف کو اہل کر کے میدان میں اتارنا ہے یہ سارا کچھ پارلیمنٹ کے ذریعے ہوتا ہے یا عدالتوں کے ذریعے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

عمران خان کو بھی اندازا ہے کہ اس کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے دو درجن مقدمات کا کیا مقصد ہے اور پھر توشہ خانہ کے بعد فارن فنڈنگ کیس بھی ہے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنی حکومتی مدت پوری کرنے کے لیے عمران خان کو ڈی ٹریک کیا ہے تاکہ عمران خان فوری الیکشن کے مطالبہ سے ہٹ کر اپنی اہلیت میں الجھ جائیں وہ لانگ مارچ کرنے کی بجائے عدالتی معاملات میں مصروف ہو جائیں میرے نزدیک عمران خان کو سوٹ کرتا ہے کہ وہ عوام کو کہے کہ انھوں نے مجھے نا اہل کیا ہے مجھے اقتدار کا کوئی لالچ نہیں یہ فوری الیکشن کروائیں میری جماعت الیکشن لڑے گی یقین کریں عمران خان دو تہائی اکثریت لے جانے گا اور پھر کسی کو بھی وزیراعظم بنا کر خود پارٹی رہبر کے طور پر پارٹی کے ذریعے حکومت چلائے لیکن ایسے لگتا ہے عمران خان کسی کا انتظار کر رہے ہیں نہ جانے عمران خان کس کے آسرے پر لانگ مارچ کی تاریخ کو لمبا کیے جا رہے ہیں پتہ نہیں انھیں کہیں سے آسرا ہے یا وہ حکومت کے اعصاب پر سوار رہنا چاہتے ہیں اب انھیں لانگ مارچ کے حوالے سے کوئی نہ کوئی فیصلہ کر لینا چاہیے پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ 12 ربیع الاول گزر جائے پھر ضمنی الیکشن گزرنے کا کہا جا رہا تھا اب کس کا انتظار کیا جا رہا ہے کہیں بیک ڈور رابطے عمران خان کو استعمال تو نہیں کر رہے ملک میں پچھلے چھ سات ماہ سے جاری عدم استحکام کے بحران نے ملک کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے لوگ تنگ آچکے ہیں ان کا کہنا ہے خدارا جو کچھ کرنا ہے کر لو، گل کسے پاسے لاو ،لیکن اصل بات یہ ہے کہ حالات مستحکم ہونے کی بجائے دن بدن غیر یقینی افراتفری کا شکار ہو رہے ہیں لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے کاروبار معدود ہوتے جا رہے ہیں ملک جام ہوتا جا رہا ہے ہر کو ڈنگ ٹپاو کام کر رہا ہے کہ نہ جانے کل کیا ہو جائے کا خوف کھائے جا رہا ہے ہر کوئی دوسرے سے پوچھتا ہے اب کیا ہو گا اب کیا بنے گا اس غیر یقینی کی فضا میں ہم کہیں ملک کا ناقابل تلافی نقصان نہ کر بیٹھیں ہمارے سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ نہ کسی کی بات مانتے ہیں نہ سنتے ہیں صرف اسٹیبلشمنٹ ہی ان کو بیٹھا کر معاملات طے کروا سکتی ہے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ واضح کر چکے کہ وہ اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد یعنی 5 ہفتوں بعد گھر چلے جائیں گے لیکن اگر ان 5ہفتوں میں یہ لڑ لڑ کر مر گئے تو کون ذمہ دار ہو گا کیونکہ نہ کوئی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہے نہ ہی کوئی ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنا چایتا ہے خدارا کردار ادا کرنے والوں کو چاہیے کہ ملک کو مزید تماشہ نہ بننے دیں اس کا حل نکالنے میں اپنا کردار ادا کر کے جائیں۔