کون کہتا ہے؟ پاکستان میں قوانین اور ادارے موجود نہیں۔ یہاں پر قانون موجود ہے مگر ادارے ان قوانین پر عملدرآمد کے لیے مخلصانہ کوشش نہیں کرتے۔ چنانچہ ایسے میں اگر کسی ادارے کا سربراہ قانون کی عملداری کے لیے کمر بستہ ہو جائے تو راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھو لیتاہے۔ ہمارے معاشرے میں نظم و ضبط کا فقدان ہے۔ معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہے۔ تمام سماجی برائیوں میں ہم خود کفیل ہیں جھوٹ، ملاوٹ، دھوکہ دہی،ناپ تول میں کمی الغرض ہر برائی بدرجہ اتم ہم میں موجود ہے۔ خوراک ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ مگر وہ خالص نہیں ملتی،دودھ کو خدا کا نور ہمارے بزرگ کہا کرتےتھے۔
دودھ میں پانی کی ملاوٹ پرانی بات ہو چکی اب تو دنیا بھر کے کمیکل چربی پاؤڈر دودھ میں شامل کیے جاتے ہیں۔ایسے پنجاب حکومت نے خوراک اور کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کی روک تھام کے لیے اک اتھارٹی قائم کی، جس کی سربراہی ایک خاتون عائشہ ممتاز کو سونپی گئی، عائشہ ممتاز نے ریسٹورنٹ اور خوراک فراہم کرنے والی کمپنیوں کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں کیں، ملاوٹ کرنے والوں کو میڈیا پر بے نقاب کیا اور بھاری جرمانے اور سخت سزائیں دیں۔ مختلف ریسٹورنٹ اور کمپنیوں کی تالابندی تک کی.
عائشہ ممتاز کی کارکردگی نے ان کو مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ انہوں نے خاتون ہونے کے باوجود بڑے مگر مچھوں کا جینا محال کردیا۔ عائشہ ممتاز نے دبنگ انداز میں کام کر کے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی دھاک بٹھا دی۔عوام کو پہلی بار معلوم ہوا کہ گدھا کڑاہی بھی ایک ڈش ہے اور معصوم عوام کو نجانے کب سے کھلائی جا رہی تھی۔بہرحال اس اتھارٹی کا قیام پنجاب حکومت کا اچھا اقدام تھا۔ مگر اس اتھارٹی کا دائرہ کار لاہور تک ہی محدود تھا۔عائشہ ممتاز کی صلاحیتوں سے عوام اس قدر مرعوب ہوئے کہ ہر شخص کے دل میں خواہش مچلنے لگی۔ کاش عائشہ ممتاز ہر شہر میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کرے۔
کیونکہ عائشہ ممتاز سے پہلے آج تک کسی نے اس قسم کی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیاتھا۔ مگر عوام بیچاری کے دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔ مختلف افواہیں گردش میں رہیں ۔کوئی کہتا ہے کہ عائشہ ممتاز نے حکومت میں شامل بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈال دیا جس کی وجہ سے حکمران غضب ناک ہو گئے کہ ہماری بلی ہم ہی کو میاوں۔ اچانک عائشہ ممتاز منظر عام سے غائب ہو گئیں۔
سوشل میڈیا پر دو قسم کی خبریں زیرگردش ہیں۔ ایک طبقے کا خیال ہے ان کو ڈرا دھمکا کر منظر عام سے غائب کر دیا گیاکیونکہ بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں پر دیانتداری سے کام کرنے والے آفیسر کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ سوشل میڈیا میں عائشہ ممتاز کے منظر عام سے غائب ہونے کو شدت سے محسوس کیا گیا۔ اکثریت کا گمان تھا کہ اس کے پیچھے حکمرانوں کی سازش کار فرما ہے۔ مگر پھر حکمرانوں کے منہ بولے ترجمان توپ و تفنگ سے لیس ہو کر میدان میں آ گئے۔ منہ بولے ترجمان عوام کو جنگی بنیادوں پر عائشہ ممتاز کی خامیوں سے آگاہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ ان کی کردار کشی شروع کی گئی اور یہ تاثر دیا گیا کہ عائشہ ممتاز کی ملاوٹ کے خلاف مہم سے غریب لوگ روزگار سے محروم ہو رہے ہیں۔
شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے دبنگ خاتون کے متعلق بتایا کہ ان کو خود نمائی کا شوق ہے۔ معصوم کاروباری حضرات کو بلیک میل کرتی ہیں۔ پورے صوبہ پنجاب میں ملاوٹ کا نام وونشان نہیں ہر چیز خالص ملتی ہے۔ بس عائشہ ممتاز کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے وہ گدھے کا گوشت برآمد کر لیتی ہیں۔ جبکہ حقیقت میں وہ گائے کا گوشت ہوتا ہے۔ ان کو وہم کا مرض ہے جس کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں۔ مگر عوام بھی عجیب مخلوق ہے عائشہ ممتاز کے خلاف پروپیگنڈہ مہم کا رتی برابر اثر نہیں لیا۔ عوام بدستور عائشہ ممتاز کو آسمانی فرشتہ اور مسیحا کہنے پر قائم رہی۔ پھر تازہ خبر آئی کے عائشہ ممتاز چار ماہ کی رخصت پر اپنی مرضی سے گئیں ہیں۔
بہرحال چار ماہ کی رخصت کے بعد عائشہ ممتاز کی تو کوئی خیر خبر نہیں البتہ پنجاب بھر میں ملاوٹ اور غیر خالص اشیاء ایسے غائب ہو گئیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ،پنجاب کے اندر اب فوڈ اتھارٹی کے بارے میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔پنجاب میں اب عالمی معیار کا خالص دودھ وافر مقدار میں موجود ہے۔پورے پنجاب میں گدھا کڑاہی اب دستیاب نہیں ۔صفائی نصف ایمان ہے کے اصول کو ہر ریسٹورنٹ کے مالک نے صفائی مکمل ایمان ہے سے بدل دیا ہے۔اب پنجاب میں بسنے والا ہر شہری خالص خوراک کھاتا ہے ۔نتیجے کے طور پر خطرناک بیماریوں کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے ۔ہسپتال ویران ہو چکے ہیں۔کیونکہ عائشہ ممتاز کے منظر عام سے ہٹتے ہی تمام ملاوٹ خور اور ریسٹورنٹ پر صفائی کا اہتمام کرنے والے عوام کی بددعاوں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر چکے ہیں۔
پنجاب فوڈ کنٹرول اتھارٹی کے ذمہ دار بھی پریشان ہیں۔ کیونکہ ملاوٹ تو ختم ہو گئی اب وہ کیا کریں۔ فارغ رہنا ویسے بھی سب سے مشکل کام ہے۔ ابھی تازہ خبر آئی ہے کہ عائشہ ممتاز کو ڈپٹی سیکریٹری وزارت خوراک و زراعت میں ترقی دے کر ہمیشہ کے لیے روزانہ کی چخ چخ سے حکمرانوں نے نجات حاصل کر لی ہے۔ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ خبردار میرے اس مضمون کو حکمرانوں کے خلاف تنقید ہر گز نہ سمجھا جائے۔ ویسے بھی حکمران سمجھتے ہیں قوم بہت بھولی ہے۔ چار دن میں بھول جاتی ہے۔ عائشہ ممتاز تو چار ماہ کی چھٹی پر گئیں تھیں۔ برا ہو عمران خان کا جس نے پانامہ لیکس کو بھولنے نہیں دیا۔ ورنہ عائشہ ممتاز کی طرح عوام پانامہ کو بھی بھول جاتی۔ (مکالمہ ڈاٹ کام)