p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: justify; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
ٹرمپ سے ٹرمپ تک آج پھر موضوعات کا متنجن اسلیئے ہے، کیونکہ سب ہی تھوڑے تھوڑے ضروری ہیں لیکن سب سے پہلے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی جو متوازن اور نیک نام سیاست دان ہونے کےساتھ ساتھ ممتازدانشور اور بہترین انسان بھی ہیں۔ آپ نے حالیہ ’’ٹرمپیوں‘‘ کے جواب میں اپنے مخصوص دھیمے دھیرے انداز سے ہٹ کر کہا ہے کہ ’’ہمیں ویت نام کمبوڈیا نہ سمجھا جائے۔
امریکہ نے غلطی کی تو پاکستان امریکی فوجیوں کا قبرستان بن جائےگا‘‘ہمیں عمل اور ردعمل …..قول اور فعل میں اعتدال و میانہ روی کا حکم ہے ۔ خارجہ امور اور پاک امریکہ تعلقات کی اتار چڑھائو سے بھرپور تاریخ کو ایک طرف رکھتے ہوئے پہلی حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ نہیں، امریکی تاریخ کا محض ایک ’’مختصر‘‘ سا مرحلہ ہے ۔ دوسری گزارش یہ کہ افراد اور اقوام کے درمیان تعلقات کا ایک آفاقی، ازلی اور ابدی اصول ہے کہ دوستوں کے ساتھ دوستی قائم رکھو، جو نیوٹرل ہوں انہیں دوستی کے دائرے میں لانے کی کوشش کرو اور جو دشمن ہو اسے نیوٹرل کرنے کی کوشش کرو۔ احتیاطاً یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ قوموں کے درمیان ’’دوستی ‘‘ اور ’’دشمنی ‘‘ کے الفاظ میں نے وسیع تر معنوں میں استعمال کئے ہیں اور اس سے میری مراد ٹین ایجرز کی سی دوستی اور دشمنی ہرگز نہیں ۔
یہ یاد دلانا بھی ہرگز ضروری نہیں کہ ہم بوجوہ ایک انتہائی جذباتی ہجومی ہیں جو دو انتہائوں کے درمیان پڑائو کرنا پسند نہیں کرتا جبکہ دھرتی کی صدیوں پر محیط دانش ہمیں بتاتی ہے کہ نہ اتنے میٹھے بنو کہ نگل لئے جائو اور نہ اتنے کڑوے ہو جائو کہ تھوک دیئےجائو۔اجتماعی دانش بروئے کار لانے کا وقت ہے اور یہ حکومتی فیصلہ سو فیصد درست کہ حکومت سیاسی اور عسکری رہنمائوں کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھے، مشترکہ حکمت عملی وضع کی جائے دوست ملکوں اور اپنے عوام کو اعتماد میں لیا جائے، اپنا اندرونی گند تیزی سےصاف کیا جائے اپنے گھر کی از سر نو تنظیم و ترتیب کا اہتمام کیا جائے توایسی کوئی سچوئشن نہیں جس کا سامنا نہ کیا جائے۔
اب چلتے ہیں اپنے ’’مقامی ٹرمپ‘‘ کی طرف سب سے پہلے ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری جس پر صدر، آرمی اور فضائیہ چیفس کے ساتھ ساتھ عمران خان اور زرداری فیملی کی نیک تمنائیں قابل تحسین ہیں کہ دراصل یہی ہمارا کلچرتھا جو گزشتہ چند برسوں سے بتدریج روبہ زوال دکھائی دے رہا تھا۔ سب کی دعا ہے کہ اللہ پاک انہیں ہمت، حوصلہ، صحت دے اور ماں کا گھنا سایہ بچوں کے سروں پر سلامت رکھے کہ بچے بوڑھے بھی ہو جائیں تومائوں کیلئے بچے ہی رہتے ہیں ۔
میاں نواز کو میں نے ’’مقامی ٹرمپ‘‘ ان کی ہوڑمت کے باعث لکھا ہے جن کی تازہ ترین ’’سرگرمیوں‘‘ نے پہلے تو مجھے حیران کر دیا لیکن پھر یاد آیا کہ استاد نے صحیح کہا تھا کہ ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی ‘‘ واقعی حکمرانی کا نشہ باقی تمام نشوں کا باپ ہے۔ ایک اخباری خبر کے مطابق’’نااہل وزیر اعظم نے صوبائی سیکرٹریز کے اہم اجلاسوں کی صدارت شروع کر دی ہے وہ صوبائی محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لیتےاور احکامات جاری فرماتےہیں جبکہ شہباز شریف ان ’’تجاوزات‘‘ پر مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئےہیں۔
کمال ہے بطور وزیراعظم نہ اسمبلی کو درشن دیتےتھے، نہ کابینہ اجلاسوں کے تکلف میں پڑتے تھے نہ بیشتر وزراء کو شرف ملاقات سے نوازتے تھے لیکن اب ؟ یہاں مجھے اورنگزیب عالمگیر یاد آ رہے ہیں۔ معزول شہنشاہ شاہ جہان نے وقت گزاری کیلئےفرزند دلبند حاضر سروس شہنشاہ عالمگیرسے فرمائش کی کہنظربندی کے دوران انہیں بچوں کو پڑھانے کی سہولت ، اجازت دی جائےتاکہ وہ ’’تعمیری سرگرمیوں‘‘ میں خود کو مصروف رکھ سکیں۔پرہیز گار لیکن سمجھ دار و برسر اقتدار اورنگزیب عالمگیر نے یہ کہتے ہوئے خواہش مسترد کر دی کہ ’’حکمرانی کا سودا سر سے نہیں نکلا، اب بچوں پر حکم چلا کر شوق حکمرانی کی تسکین چاہتےہیں‘‘ شہباز شریف شاباش کے مستحق ہیں کہ چپ اور دم دونوں سادھ رکھے ہیں۔
آخر پر امریکن انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ جیمز کلپرکا یہ تبصرہ کہ ’’ڈونلڈ ٹرمپ ذہنی مریض اور امریکن صدر کے عہدہ کیلئے ’’نااہل‘‘ ہیں‘‘ تو کوئی کیا کرے ؟ دنیا کی لگامیں بہت سے ’’نااہل‘‘ لوگوں کے ہاتھوں میں رہی ہیں اب بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی لیکن دنیا چلتی رہی چل رہی ہے اور تب تک چلتی رہےگی جب تک اسے بنانے والا اسے چلانے میں دلچسپی لےگا۔کالم کا آغاز ہی اس کا انجام سمجھیں کہ ٹرمپ سے شروع ہو کر ٹرمپ پر ختم لیکن یہ طے ہے کہ ٹرمپ صرف ٹرمپ ہے ، امریکہ نہیں سو یہ حقیقت سامنے رکھ کر ہی سٹریٹیجی پر کام کیا جائے اور اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لینا چاہئے کہ اول تو پاکستان جیسے ملک کا موجودہ حالات میں بھی سرے سے کوئی وزیر خارجہ ہی نہ تھا اور اب ہے بھی توکون ؟ خواجہ آصف ؟کہاں امور خارجہ او ر کہاں خواجہ آصف ؟ میں یہ سوچتے ہی سر پکڑ کے بیٹھ جاتا ہوں کہ خواجہ کس قسم کی خارجہ کرے گا۔میاں صاحب تو پھر ’’پرچیاں‘‘ پڑھ لیتے تھے، خواجہ سے تو یہ بھی نہیں ہونا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے خواجہ آصف تک …..کیسی بلندی کیسی پستی !
( شکریہ حسن نثار ڈاٹ پی کے)