نوٹ : یہ وہ پیروڈی کالم ہے جس پر زید حامد صاحب نے مجھے اس “خرافات” پیروڈی لکھنے پر بلاک کر دیا تھا .
ہمیں وائبر پر قسطنطنیہ کے فرماں روا کا پیغام آیا کہ آپ اپنے لشکر کے ساتھ جلدی سے قسطنطنیہ پہنچیں کہ یہاں پر صہیونی سنڈیوں نے فصلوں پر حملہ کیا ہوا ہے اور ہمیں تھرڈ جنریشن اور کولڈ وار کے سپیشلسٹ کی ضرورت ہے .”ہم نے امت مسلمہ کی بھلائی میں فوراً قسطنطنیہ کا قصد کیا .ہم نے اپنا لشکر “یو ایس بی” میں ڈالا، اپنے براق کو ایڑ لگائی اور اس پر پر سوار ہو کر قسطنطنیہ کے ساحل پر پہنچ گئے .ہم نے بر وقت سنڈیوں کو تہ و تیغ کر دیا .ان یہودیوں ،صہیونی سنڈیوں نے میڈیا کے ذریعے ،قسطنطنیہ میں عذاب مچا رکھا تھا.
قسطنطنیہ کے بعد ہم نے بغداد کا قصد کیا .بغداد میں ہمیں تھرڈ جنریشن وار سٹریٹیجی پر بغداد کے خلیفہ اور شوریٰ کو لیکچر دینا تھا .ہم اپنے براق پر بغداد کے ساحل پر اترے .میرے نوجوانوں ،تم ہر گز سفما ،اور جیو کے پراپیگینڈے میں نہ آنا جو خرافات کہیں گے کہ بغداد کا تو ساحل ہی نہیں ہے .ساحل ہو یا نہ ہو ہم ہمیشہ ساحل پر ہی اترتے ہیں .یہ الله رب العزت کا ہم پر خاص کرم ہے .ہم نے بغداد کے خلیفہ کو سمجھایا کہ تھرڈ جنریشن وار کا مطلب کیا ہے اور یہ کیسے لڑی جا سکتی ہے ؟ ہم نے انہیں تھرڈ جنریشن وار کی عملی ایکسرسائز کر کے دکھلائی .ہم نے کہا کہ خلیفہ صاحب آپ ہمارے لئے تین بندروں کا بندوبست کریں .انہوں نے بندر پورے پروٹوکول کے ساتھ ہمارے حوالے کر دیے . ہم نے ان تینوں بندروں کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا . ان تینوں بندروں نے خلیفہ اور ہمیں اقبال کے شعرسنائے .پہلے بندر نے کہا۔
دوسرے بندر نے کہا۔
تیسرے بندر نے کہا۔
فضا الله اکبر ،نعرہ تکبیر کے شور سے گونج اٹھی.
اب ہم نے براق کو ایڑ لگائی اور غرناطہ کا قصد کیا .غرناطہ کے ساحل پر پہنچ کر ہم نے الحمرا میں جا کر نماز پڑھی .وہاں سے ہم اندلس کے ساحل پر جا اترے .اندلس میں طارق بن زیاد کی یاد میں ہم نے والز میگنم کی ڈنڈوں سے بنی کشتی جلائی .اندلس سے ہم دمشق کے ساحل پر اترے ،دمشق سے ہم دیبل کے ساحل پر گئے ،وہاں سے پھر ہم غرناطہ واپس آ گئے ،چاشت کی نماز ادا کی.
غرناطہ میں صہیونیوں نے ہمارے براق میں پٹرول کے بجائے سرسوں کا ‘کوُڑا ‘ تیل ڈال دیا .ہم وہاں براق یعنی اپنے رکشے کی خرابی کی وجہ سے کافی دیر تک رکے رہے .وہاں سے دیبل میں موجود محمد بن قاسم نے ہمیں وٹس ایپ پر میسج کیا کہ آپ کے لئے نیک تمنائیں ہیں .ہم نے جواب میں اپنے خادموں کو محمد بن قاسم کومیڈ ان چائنا باربی کنیزیں بھیجوانے کا حکم دیا .واپس دمشق آ کر کر ہم نے نناوے بار قسطنطنیہ ،قسطنطنیہ کا ورد کیا .وہیں پر ہمیں سعودی شرطوں نے مولانا طاہر اشرفی جیسے غلیظ ،نا پاک صہیونی ایجنٹ،حامد میر، را کے ایجنٹ،ماروی سرمد ،زنانہ را کی ایجنٹ،نصرت جاوید ،اسرائیل موساد کے ایجنٹ،امتیاز عالم ،ان تمام کے ایجنٹ ،ان ایجنٹوں کی سازش کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا.
لیکن گرفتاری کے کچھ ہی عرصے بعد سعودیوں کو ہماری اہمیت کا اندازہ ہو گیا .ہمیں سیون سٹار پروٹوکول ملنے لگا .وگر نہ اس سے پہلے تو ایک سعودی تفتیش کار نے ہم سے تفتیش کے دوران یہ گستاخانہ سوال بھی کر ڈالا کہ “تہاڈی ستھن نی جیب تو چرس دی پڑی ملی ہے گی ،سانوں کنے دی دیو گے ؟ ” .ہم نے اس گستاخ کا دماغ درست کر دیا کہ ہم نشہ نہیں کرتے اور نہ ہی بیچتے ہیں یہ سفما ،جیو ،را اور صہیونی سازش ہے.
گرفتاری کے فورا بعد یہ فیصلہ بھی ہو گیا تھا کہ ہمیں سو کوڑے ،قسطنطنیہ کے ساحل پر جا کر لگائے جائیں گے ،سو کوڑے دمشق کے ساحل پر ،سو کوڑے بغداد کے ساحل پر ،سو ،دیبل،سو،غرناطہ ،سو اندلس ،سو سمرقند میں جا کر ،سو جی ایچ کیو ،راولپنڈی کے ساحل پر ،سو دوبارہ قسطنطنیہ کے دوسرے ساحل پر جا کر لگائے جائیں گے .مگر بعد میں جب سعودیوں کو ہماری اہمیت کا احساس ہوا،ہمیں سزا نہیں دی گئی اور ہمیں رہا کر دیا گیا.
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}