جس طرح آپریشن کرنے کے لیے ڈاکٹر, کسی عمارت کا پل بنانےکے لیے انجینیئر, کسی کاروبا یا کمپنی میں کام کرنے کے لیے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح ہمارے مستقبل کے معماروں کو پڑھانے کے لیے اپنے مضمون کے ساتھ ساتھ ایک استاد کو ٹیچنگ کے شعبے میں بھی ماہر ہونا لازمی ہے. تا کہ اسے یہ بھی پتا ہو کہ جس مضمون میں وہ مہارت رکھتا ہے،اُسے فیلڈ میں جا کر کن کن طریقوں سے پڑھایا جا سکتا ہے۔ یا پڑھانے کے دوران کون کون سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور اُن مسائل سے کس طرح ڈیل کیا جا سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیچر ایجوکیشن کے شعبے میں بہت سی خامیاں ہیں۔ جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کوئی بھی شخص استاد بنے یا بننا چاہتا ہو تو اسکے پاس کم از کم ٹیچر ایجوکیشن کی ڈگری ہونی چاہیے۔ وہ بی ایڈ ہو یا ایم ایڈ۔یہاں بہت سی ایسی مثالیں دے کر میری بات کو رد کیا جا سکتا ہے کہ مختلف جگہوں پر بہت سے اساتذہ ٹیچر ایجوکیشن کی ڈگری کے بغیر بھی بہت اچھا پڑھا رہے ہیں۔میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔
لیکن ایجوکیشن کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں کہ استاد کو صرف اپنے کورس پر مکمل مہارت نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ اسکو کس طرح پڑھانا ہے۔ اسکے لیے کون کون سے طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ انکے فوائد اور نقصان کیا ہیں۔ یہ چیزیں بہت زیادہ معنی رکھتی ہیں۔ اپنے کورس میں ماہر ٹیچر بچوں کا سلیبس تو جلدی مکمل کرو ادے گا یا بچوں کو رٹا لگوا کر سب کچھ یاد تو کروا دے گا۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس سے بچے نے کس قدر سیکھا ہے۔آج کل ہمارے اردگرد سکولوں اور اکیڈمیز میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جسکی بہت بڑی وجہ اساتذہ کا پڑھانے کے طریقے سے آگاہ نہ ہونا ہے۔
استاد کا لفظ اپنے اندر بہت وسیع معنی رکھتا ہے۔ استاد کی ذمہ داری صرف سکول میں جا کر بچوں کو کتابوں سے دیکھ کر جو سمجھ آیا پڑھا دینا اور باقی وقت کلاس میں سو کر یا گپیں ہانک کر گزارنا نہیں ہے۔ بلکہ ایک استاد کو پتا ہونا چاہیے کہ اسکے پاس کیا ریسورسز ہیں۔ انکو کس طرح استعمال میں لانا ہے۔ اسکو پتا ہونا چاہیے کہ کس طرح جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے, یا دور دراز کے کسی علاقے میں جہاں مشکل سے چاک اور بلیک بورڈ میسر ہو، وہاں کس طرح پڑھانا ہے۔ بعض اوقات بہت سے سکولوں میں تو یہ سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں، تو وہاں کونسا طریقہ سب سے بہتر رہے گا۔ ایک ستاد کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ پڑھانے کے لیے جو طریقہ استعمال کر رہا ہے۔ آیا اس میں کوئی تبدیلی تو نہیں ہوئی۔ یا کوئی ایسا طریقہ تو نہیں ہے۔ جس کو استعمال میں لاتے ہوئے وہ بہتر طریقے سے اپنی بات بچوں کو سمجھا سکتا ہو۔ جس سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہوں۔
ایک ستاد کو بچوں کی نفسیات کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔ اسکو پتا ہونا چاہیے کہ بچے کی توجہ سبق کی طرف کس طرح مرکوز کروانی ہیں۔ یا کن وجوہات کی بنا پر بچہ سبق میں دلچسپی نہیں لے رہا اور کس طرح وہ اِس پریشانی کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایک استاد کا گائیڈ اور کونسلر ہونا انتہائی ضروری ہے۔ وہ جانتا ہو کہ کس طرح بچوں میں مثبت اور تعمیری سوچ پیدا کرنا کے لیے انکی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ استاد کی رہنمائی اور کونسلنگ کی وجہ سے ایک ایسا بچہ جو خود کو نالائق سمجھتا ہو۔کیونکہ ہمارے ہاں استاد سے لے کر ماں باپ تک سب لوگ بچے کی ابتدائی عمر میں ہی اسکے ذہن میں یہ بٹھا دیتے ہیں کہ وہ نالائق ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے بچے پرائمری اور مڈل میں ہی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن اگر ایک استاد جو کونسلنگ سے تھوڑی سی واقفیت رکھتا ہو وہ بچے کا اعتماد بحال کر کے اسکی دلچسپی کو بڑھا کر پڑھائی کو بہتر بنا سکتا ہے۔
ایک استاد کو پیپر بنانے سے لے کر مارکنگ تک کے سسٹم سے آگاہ ہونا چاہیے۔ تا کہ وہ اپنے طلبہ کی کارگردگی کو بہتر طریقے سے جج کر سکے۔ اگر ایک استاد کو یہ ہی نہیں پتا کہ اسکا بنایا ہوا ٹیسٹ بچے کی کونسی قابلیت کا احاطہ کرے گا۔ یا اسکے بنائے ہوئے ٹیسٹ میں کیا کیا خامیاں ہیں۔ تو وہ طلبہ کی قابلیت کا بہتر طریقے سے احاطہ کرنے کا اہل نہیں ہو گا۔ یہاں کہا جا سکتا ہے کہ پیپر کی تیاری یا چیکنگ کے لیے تو علیحدہ ادارہ ہے۔ لیکن سالانہ پیپرز کےعلاوہ بھی روزانہ, ہفتہ وار, ماہانہ اور سہہ ماہی ٹیسٹ بھی ہوتے ہیں۔ جنہیں صرف اور صرف کلاس کے استاد کو بنانا ہوتا ہے اور اسے کےلیے ایک ٹیچر میں اتنی اہلیت ہونی چاہیے کہ وہ ان ٹیسٹ کی بنیاد پر یہ پتا کر لے کہ اسکے طالب علموں نے کتنا سیکھا اور مزید کن کن جگہوں پر بہتری کا امکان ہے۔
تعلیمی فلسفے اور تاریخ کےعلم ایک استاد کے لیے اس حوالے سے بہت زیادہ ضروری ہے۔ تا کہ وہ جانتا ہو کہ تعلیمی فلسفے کون کون سے ہیں اور کن کن فلسفیوں نے اس پر کام کیا ہے۔ اور انکے نظریات کیا ہیں۔ تعلیمی تاریخ سے آگاہی اس لیے ضروری ہے کہ ایک استاد یہ جانتا ہو کے زمانہ قدیم سے لے کر آج تک تعلیم کے شعبے میں کیا کیا کام ہوا ہے۔ نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر پڑھانے کے کون کون سے طریقے سب سے بہترین مانے جاتے ہیں اور استعمال ہو رہے ہیں۔
یہ وہ اہم شعبے ہیں۔ جس میں ایک استاد کا ماہر ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ وہ ادب سائنس یا ریاضی کے مضامین پڑھا تو لے گا۔ لیکن اسکی بچوں کو سمجھ آئی بھی ہے یا نہیں ؟اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے بچوں کا موڈ نہ ہو پڑھنےکا اور استاد صاحب چیپٹر مکمل کروا کر بھی چلا جاۓ۔ یا پڑھاتے ہوۓ صدیوں پرانے طریقے استعمال کر رہے ہوں۔ پیپر تو لے لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ ان پیپروں سے بچوں کی کونسی قابلیت کا احاطہ کیا ہے۔
یہاں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ کونسلنگ, کلاس روم مینجمنٹ اور امتحانات کے لیے علیحدہ علیحدہ شعبے ہوتے ہیں یا ہونے چاہیے۔ لیکن میرے نزدیک ایک تو ہمارے ملک میں اتنے وسائل نہیں ہیں کہ الگ الگ شعبے بناۓ جائیں، دوسرا یہ کہ اگر استاد خود سے پیپرز کی تیاری اور دوسرے کام کرے گا تو وہ اپنے طالبعلموں کو بہتر طور سے سمجھ سکے گا اور جہاں کوتاہیاں ہوں انہیں دور کر سکے گا۔
اگرچہ حکومت نے پہلے بھی اساتذہ کے لیے ٹیچنگ ڈگری ہونے پر زور دیا ہے لیکن فی الحال اس پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ جس کے نقصانات ہم اپنے تعلیمی شعبے میں اساتذہ کی سطح پر دیکھ سکتے ہیں۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}