228

ہمارے گاؤں۔جنت کوجہنم نہ بناؤ

یہ زندگی اورانسانیت نہیں کوئی ڈرامہ ہی لگ رہا ہے۔اصل زندگی تووہ تھی جسے اس نام نہادترقی نے اب اپنے دامن میں چھپالیاہے۔پڑوس میں میت پڑی ہوتی ہے ،آہوں اورسسکیوں سے درودیوارہل رہے ہوتے ہیں لیکن پھربھی ساتھ والے گھرمیںڈھول اورباجے پابندی کے ساتھ بجتے رہتے ہیں۔ کیایہ زندگی یاکوئی انسانیت ہے۔۔؟ واللہ۔۔انسان تو ایسے نہیں تھے۔ کچھ دن پہلے ایک جنازے پرآبائی شہربٹگرام جاناہوا،جنازہ لیٹ ٹائم میں ہونے کی وجہ سے رات پھر وہیں گزارنی پڑی۔ اس گائوں اوراس علاقے میں جہاں سے دن کوجنازہ اٹھاتھا شام کے بعدکسی منگنی یاشادی کی خوشی میں اتنی فائرنگ ہوئی کہ پھرہمارے کانوں سے بھی سیٹیوں کی آوازیں آناشروع ہوئیں۔ یہی وہ گائوں اورعلاقے توتھے جہاں آج سے پندرہ بیس سال پہلے جب کوئی فوتگی ہوتی توہمارے آبائواجداد، رشتہ دار اور گائوں والے گھروںمیں چولہے تک نہیں جلاتے تھے۔گائوں کیا۔؟ قریب کے کسی گائوں،دیہات یادورپارکے کسی علاقے میں بھی اگرکوئی فوتگی ہوتی تووہ ٹی وی ،ریڈیواورٹیپ ریکارڈرکواٹھاکرصندوق میں ڈال دیتے تھے۔ایک صرف ایک ماتم پر پورے گائوں میں سناٹاچھاجاتاتھا۔ایسا محسوس ہوتاکہ مرنے والے کے ساتھ پورے کے پورا گائوں کہیں مرگیاہو۔ مرنے والے کی جدائی اورغم میں ہرآنکھ اشکبارہوتی تھی۔ ہمیں اچھی طرح یادہے کہ ہمارے گائوں کے عبدالقدوس کاکا جس دن فوت ہوئے اس دن شارجہ میں پاکستان اورسری لنکاکامیچ تھا۔ آج کی طرح اس وقت ہرگھرمیں ٹی وی اورہاتھ میں یہ موبائل تونہیں تھے۔ پورے گائوں اورعلاقے میں اکادکاگھرایسے ہوتے کہ جن میں کہیں ٹی وی،ریڈیواورٹیپ ریکارڈر ہوتے تھے۔ ہماری پھوپھی جن کاگھرگائوں سے کچھ دورایک ٹیلے نماجگہ پرتھاجہاں آج بھی چڑھائی چڑھتے ہوئے ہمارے جیسوں کی سانسیں اکھڑ جاتی ہیں۔ ان کے گھرمیں ٹی وی تھی ۔ہم بھائی، کزنز اور دیگردوست وہاں انہماک سے بیٹھ کروہ میچ دیکھ رہے تھے کہ اچانک پھوپھی چیختی اورچلاتی ہوئی کمرے میں آئی اورٹی وی بندکرتے ہوئے بولی۔عبدالقدوس کاکافوت ہوگئے ہیں۔

یہ سنتے ہی ہم سب اس طرح ساکت اوربے جان سے ہوگئے کہ جیسے عبدالقدوس کاکانہیں ہم مرگئے ہوں۔ پھرچندلمحوں میں ہم فوتگی والے گھرپہنچے۔اس میچ کاکیاہوا۔؟ہمیں کسی سے پوچھنے کی جرات ہوئی اورنہ کسی نے کہنے کی کوئی ہمت۔اسی طرح ایک بارہم جمعرات والے دن پی ٹی وی پرعینک والاجن ڈرامہ دیکھ رہے تھے کہ خبرآئی عبدالرحمن کاکافوت ہوگئے ہیں تب بھی اسی طرح ہمیں پھوپھی کے گھرسے الٹے پائوں واپس آناپڑا۔گائوں میں کوئی بھی فوت ہوتااس وقت ایسامحسوس ہوتاتھاکہ جیسااپناہی کوئی مراہو۔پوراکاپوراگائوں ماتم والے گھرمیں جمع ہوتا۔بڑوں سے لیکرچھوٹوں تک ہربندہ مرنے والے کی جدائی اورغم میں اس قدرسوگوارہوتاکہ یہ پتہ ہی نہ چلتاکہ اصل سوگواراورلواحقین کون ہیں۔اگرمیت کورات رکھناہوتاتوہررنگ،نسل اوربرادری کے لوگ سوگوارخاندان کے ساتھ ایک ہی جھونپڑی میںرات گزارتے۔ عبدالرحمن کاکاجس دن فوت ہوئے اس دن ان کودفن نہیں کیاگیاکیونکہ لاہورمیں اس کی ایک بیٹی تھی جس نے آناتھاہمیں آج بھی اچھی طرح یادہے کہ وہ رات گائوں کے بڑوں کے ساتھ ہم چھوٹوں نے بھی جاگ کرگزاری تھی۔آج کسی گائوں والے کی جدائی،یاداورغم میں راتیں جاگ کرگزارناتودوریہ بے حس لوگ دن بھی جاگ کرنہیں گزارتے۔ہمیں نہیں یقین کہ آج فوتگی کے اعلان پراکثرلوگ اناللہ واناالیہ راجعون بھی پڑھتے ہوں۔لکڑاورچولہے نہ جلانے والی باتیں توپرانی بہت پرانی ہوگئی ہیں۔گھرمیں میت پڑی ہوتی ہے اورساتھ والے گھروں میں موبائل اورٹی وی پر انڈین فلمیں،کرکٹ میچ اورڈرامے چل رہے ہوتے ہیں۔نوجوان ماتم والے گھراورمیت کے پاس ہی کانوں میں ہیڈفون لگاکرمیوزک سے لطف اندوزہورہے ہوتے ہیں۔رات کوسوگوارخاندان کویہ کہہ کرچلتے بنتے ہیں کہ گھرپربچے اکیلے ہیں اورزمانہ ٹھیک نہیں۔اس لئے جانابہت ضروری ہے۔پہلے قبرکی کھدائی کے لئے پورے گائوں کے جوان،بوڑھے اوربچے جمع ہوتے تھے لیکن اب پیسے دے کرمزدوروں سے قبرکی کھدوائی کروائی جاتی ہے۔پہلے کسی بھی فوتگی پرپورے گائوں میں شادی بیاہ کی تاریخیں تین چارمہینے آگے کردی جاتی تھیں لیکن اب میت دفنانے کے بعدقبرکی مٹی اورسوگوارخاندان والوں کی آنکھیں آنسوئوں سے بھی خشک نہیں ہوتیں کہ شادیوں والے سوگوارخاندان کے پاس پہنچ جاتے ہیں کہ اگرآپ برانہ منائیں توہم بچے کی شادی پرڈھول ،بینڈاورباجے بجالیں کیونکہ ہم نے کونسی روزروزبچے کی شادی کرنی ہے۔شادی لیٹ اورتاریخ آگے بڑھانے کی بات اب کوئی نہیں کرتا۔اب توسوال ہی پیدانہیں ہوتاکہ گائوں میں کسی فوتگی کی وجہ سے شادی بیاہ کاکوئی پروگرام کینسل یامنسوخ ہو۔ہمارے گائوں،دیہات اورعلاقے توآج بھی وہی ہیں لیکن ان میں لوگ اب وہ پرانے والے نہیں رہے ہیں۔وہ لوگ جواپنوں کے ساتھ غیروں کے دکھ،درداورغموںکو بانٹاکرتے تھے ،جوایک دشمن کی جدائی پربھی آنسوبہاکراس کی یادمیںراتیں جاگ کرگزارتے تھے ۔وہ لوگ اب نہیں رہے ہیں۔

احساس،رحم،پیار،محبت اوربھائی چارے کاجوجذبہ ،شوق اوردردجن دلوں میں ہواکرتاتھاآج وہ دل ہیں اورنہ دلوں میں وہ احساس ہے وہ جذبہ ، وہ درداورنہ وہ پیار،محبت اوربھائی چارہ۔شہرہیں یاگائوں اب ہرطرف اورہرجگہ نفسانفسی کاایک عالم ہے۔غیرتوغیر۔ آج کے انسانوں اورلوگوں کویہ تک پتہ نہیں ہوتاکہ ان کے اپنے سگے ماں باپ اوربہن بھائیوں پرکیاگزررہی ہے۔ پڑوس اورپڑوسی توکسی کھاتے میں نہیں۔آج توایک ہی گھراورایک ہی چھت تلے رہنے والے اپنے خونی رشتہ داربھی ایک دوسرے کے دکھ،درداورغم وپریشانی سے بے خبراورلاعلم ہوتے ہیں۔ہرشخص دنیاکمانے اورکچھ پانے کے چکرمیں دوڑبھاگ میں لگاہواہے لیکن اس کے باوجودکسی کی زندگی میں کوئی سکون نہیں۔ جب سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کی روایات اوراقدارکوچھوڑاہواہے تب سے شہروں کے ساتھ گائوں اوردیہات کی ہوائیں اورفضائیں بھی بے سکون اوربے چین سی ہونے لگی ہیں۔ یہی وہ گائوں اوردیہات توہیں جہاں کبھی انسان کوٹھنڈی سانس لیتے ہوئے جنت کاگمان ہونے لگتاتھا۔اب گائوں اوردیہات تووہی ہیں لیکن یہاں کی ہوائیں اورفضائیں وہ نہیں ۔آپ یقین کریں اب یہاں سانس لیتے ہوئے تکلیف بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہمارے گائوں توہماری جنتیں ہواکرتی تھیں ۔ہم اپنے ان ہاتھوں،عادات اور جدید طور طریقوں سے اپنی ان جنتوں کو جہنم میں تبدیل کررہے ہیں۔ ہمیں کسی کی نعش اورلاش پرڈھول باجے بجاتے ہوئے ایک صرف ایک منٹ کے لئے یہ سوچناچاہیئے کہ ہمارے بزرگ کیاکرتے تھے اورہم کیاکررہے ہیں۔؟ ہمیں اپنی ادائوں اورانائوں پرغورکرکے اپنے یہ طورطریقے فوری بدلنے ہونگے ورنہ پھرہماری یہ دنیاوی جنتیں بھی جنتیں نہیں رہیں گی۔