210

پی ڈی ایم نے اسٹیبلشمنٹ کو مایوس کیا

نئی پیدا شدہ صورتحال میں پچیدگی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ بڑے بڑے جغادڑیوں کو سمجھ نہیں آ رہی کیا ہونے جا رہا ہے ہر ایک کے ذہن میں بے شمار سوالات کلبلا رہے ہیں اور ہر کوئی اس کھوج میں ہے کہ نئی آلائنمنٹ کیا ہونے جا رہی ہے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم نے اسٹیبلشمنٹ کو مایوس کیا ہے ان کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہو چکی؟ کیا حالات پی ڈی ایم کے کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں؟ کیا پی ڈی ایم کا ایجنڈا پورا ہو گیا ہے؟ آرمی چیف کی تعیناتی کون کرے گا؟ الیکشن کب ہوں گے؟ نیا سیٹ اپ کیا ہو گا؟اب کے منظور نظر کون ہو گا؟ کیا عمران خان کی آرمی چیف سے ملاقات میں معاملات طے ہو چکے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کو گو ہیڈ دے دیاہے؟ میاں شہباز شریف میاں نواز شریف سے اجازت لینے گئے ہیں؟ کیا پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ن لیگ سے ناراض ہے؟ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کے قیام کی اجازت مل گئی ہے؟ موجودہ حکومتیں کتنی دیر چلیں گی؟ الیکشن کب ہوں گےاور کون کروائے گا؟ موجودہ آرمی چیف کو توسیع ملے گی یا نئے آرمی چیف کی تقرری ہو گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو زبان زدہ عام ہیں لیکن اتنے سارے سوالات کے جواب کسی کے پاس نہیں اگر ان میں سے آدھے سوالوں کے جواب بھی مل جائیں تو صورتحال واضح ہو سکتی ہے اور کسی حد تک غیر یقینی میں کمی لائی جا سکتی ہے لیکن ہرآنے والے دن میں غیر یقینی بڑھ رہی ہے کس لمحے کیا ہو جائے کس کی چال کارگر ثابت ہو جائے کون مات کھا جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہمارے اداروں سمیت ہمارے سیاستدانوں اور پوری قوم کی بیشتر توانائیاں چالیں چلنے اور چالوں کو ناکام بنانے پر صرف ہو رہی ہیں نت نئے پروپیگنڈا بنانے انھیں مارکیٹ کرنے اور ان کو ڈیفوز کرنے پر وقت ضائع ہورہا ہے اگر یہ توانائیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے نقصان پینچانے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کرنے کی بجائے تعمیری کاموں پر خرچ ہوں تو اندازا کریں قوم کہاں سے کہاں پہنچ سکتی ہے۔

بدقسمتی سے غیر یقینی کی نحوست ہمارا پیچھا چھوڑنے کا نام نہیں لے رہی آپ زرا اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں پاکستان کی کوئی ایسی سیاسی جماعت جس کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہو اور اقتدار سے باہر رہ گئی ہو نظر آتی ہے یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طرح اقتدار میں ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی بھی ڈلیور کرنے کی پوزیشن میں نہیں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جے یو آئی، ایم کیو ایم، اے این پی، باپ پارٹی مسلم لیگ ق کا ایک دھڑا سمیت آذاد ارکان سب وفاقی حکومت میں ہیں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے بلوچستان میں باپ پارٹی باقی علاقائی جماعتوں کے ساتھ اقتدار میں ہے پنجاب اور خیبر پختون خواہ ،گلگت بلتستان اور آذاد کشمیر میں تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں کی حکومتیں ہیں سینٹ میں اور ہی سیٹ اپ ہے اس سے بڑی اور قومی حکومت کیا ہو گی لیکن مزے کی بات ہے تمام لوگ کسی نہ کسی طرح اقتدار میں ہونے کے باوجود رونا رو رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ یہ سسٹم ناکام ہے بہر حال اب آتے ہیں حالات کی طرف اوپر جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم کی جماعتیں ناکام ہو چکیں اور اسٹیبلشمنٹ پی ڈی ایم سے مایوس ہے سب سے پہلے تو یہ واضح کرنا ہو گا کہ پی ڈی ایم نے اسٹیبلشمنٹ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت سے پوری قوم عاجز آ چکی ہے جس دن تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہو گا لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے اس وقت واقعی ہی حالات ایسے تھے لیکن پی ڈی ایم عدم اعتماد لانے میں لیٹ ہو گئی عمران خان نے پٹرول بجلی گیس میں بڑا ریلیف دے کر اور قبل از وقت ہی آنے والے حالات کو بھانپ کر قوم کو اعتماد میں لینا شروع کر دیا جس سے کایا ہی پلٹ گئی اوپر سے آتے ہی پی ڈیم حکومت کے سر پر اولے پڑنے شروع ہو گئے ان کے اندازے غلط ہو گئے پی ڈی ایم کی حکومت حالات کنٹرول نہ کر سکی عمران خان قوم کو باور کروانے میں کامیاب ہو گیا کہ اس کی حکومت سازش سے گرائی گئی ہے وہ اپنا بیانیہ لوگوں کے ذہنوں میں پیوست کر چکا تھا جو آج تک لوگوں کے ذہنوں سے نہیں نکل رہا جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ کتنے دن ہیں اس لیے انھوں نے آتے ہی عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اپنے آپ کو ریلیف دینے کو فوقیت دی پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتیں سیاسی نقصان کر بیٹھی ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو این آر او دلوانے میں کامیاب ہو گئی ہیں انھوں نے اپنے نیب کیسز سے جان چھڑوا لی ہے اب سیاسی جماعتوں کی تمام بڑی لیڈر شپ کے 50 کیسز عدالتوں نے واپس نیب کو بجھوا دیے ہیں عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں این آر او لے چکی ہیں۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشین بھی ختم کروا چکی ہیں پی ڈی ایم اپنے لیے جو فائدے اٹھا سکتی تھی اٹھا لیے لیکن انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کو مشکل میں ڈال دیا ہے اب ان کا تقاضہ یہ ہے کہ عمران خان ہمارے قابو میں نہیں آرہا آپ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت بنوا کر دیں عمران خان کو نا اہل قرار دلوائیں اسے گرفتار کروائیں لیکن عمران خان کے پاس جو عوامی مقبولیت کا ہتھیار آ چکا ہے وہ کسی کو بھی ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہزار بار سوچنے پر مجبور کرتا ہے معاملات پی ڈی ایم کے ہاتھ سے تقریبا نکل چکے ہیں اب ان کی کوشش ہے کہ جتنے دن نکلتے ہیں نکال لیں اسٹیبلشمنٹ پی ڈی ایم کے لیے کوئی نیا رسک لینے کے لیے تیار نہیں اس ملک میں بہت ساروں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں لیکن عمران خان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں اس کے جو دل میں آتا ہے وہ کر رہا ہے اس کا سارا زور جلد از جلد الیکشن کی طرف ہے اور اس کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہے عمران خان ایک خاموش انقلاب برپا کر چکا جس کو ہر کوئی محسوس کر رہا ہے بحث یہ ہو رہی ہے کہ کیا عمران خان کے فالورز کس حد تک جا سکتے ہیں کیونکہ روائیتی چیزیں ختم ہو چکی ہیں نیا زمانہ ہے نئی پود ہے نئی ٹیکنالوجی ہے کچھ پتہ نہیں کس اقدام کا رد عمل کیا نکل آئے اس لیے فیصلہ کرنے والی قوتیں کسی انتہائی اقدام کی طرف جانے سے گریز کر رہی ہیں وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ وہ انتہائی اقدام کس کے لیے اٹھائیں جن کی ٹانگوں میں پہلے ہی جان نہیں ان پر بھروسہ کیسے کیا جا سکتا ہے ان قوتوں کوبھی معاملات چلانے کے لیے ایک پاپولر سیاسی فورس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جو سیاسی فورس خود عوام میں جانے سے گھبرا رہی ہو وہ کسی اور کو کیسے سپورٹ کر سکتی ہے اب معاملات زیر بحث ہیں کہ پی ڈی ایم چاہتی ہے کہ کسی طرح ان کے چار چھ ماہ اور لگوا دیے جائیں تاکہ عوام میں جانے کے لیے کوئی سازوسامان اکٹھا کر لیں۔