224

سیلاب اور سیاست ساتھ ساتھ

آدھے سے زیادہ پاکستان پانی میں بہہ گیا ہے بہت بڑی آبادی کو خوفناک تباہی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن متاثرین میں پورا پاکستان ہی شامل ہو چکا ہے کیونکہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات ہر پاکستانی کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں ملک میں پہلےہی شدید قسم کا معاشی بحران آیا ہوا تھا لیکن سیلاب نے تو جان ہی نکال لی ہے عام آدمی کو پیٹ بھرنے کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا مشکل ہو رہا ہےکھانے پینے کی اشیاء عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں اور اب تو سبزی خریدنا بھی مشکل ہو گیا ہے اوپر سے معاشی اشارے سمجھنے والے بین الاقوامی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو اگلے سال تک مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور پاکستان میں مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہو سکتے ہیں یہ درست ہے کہ لوگوں کا صبر اور برداشت اب جواب دے چکا ایسے لگتا ہے کہ ایک ہی وقت میں تمام مصیبتوں نے پاکستان کو گھیر لیا ہے ان مصیبتوں سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس کوئی مربوط حکمت عملی نہیں بحث یہ ہو رہی ہے کہ عمران خان ان دنوں کیوں سیاست کر رہے ہیں وفاقی حکومت عمران خان پر عوامی دباو بڑھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ ہم لوگوں کو تاثر دیں گے کہ ہم سیلاب زدگان کی بحالی کا کام کر رہے ہیں اور عمران خان جلسے کر رہا ہے لیکن کیا کیا جائے لوگ عمران خان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں لوگ اس کی ایک آواز پر جلسے میں بھی آتے ہیں اور ایک آواز پر چند گھنٹوں میں پانچ ارب روپے بھی نچھاور کر دیتے ہیں حکومت چاہتی ہے کہ عمران خان ان کے ساتھ مل کر کام کرےکاش پاکستان میں ایسا ماحول ہوتا کہ پوری قوم یکجا ہو کر مسائل کا سامنا کرتی مصیبت کے مارے لوگوں کی بحالی کا کام کیا جاتا لیکن یہاں تو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں مل کر کام کرنے کاتو خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔

اگر موازانہ کیا جائے کہ کون سیاست کر رہا ہے اور کون خدمت کر رہا ہے تو پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت اس معیار پر پورا نہیں اترتی ہر سیاسی جماعت دونوں کام کر رہی ہیں بلکہ خدمت اس نیت سے کی جا رہی ہے کہ اس کا فائدہ ان کی سیاست کو پہنچے ہر متاثرہ فردکی خواہش ہے کہ سرکار اس تک پہنچے اور اس کی دلجوئی کرے لیکن ایسا ممکن نہیں اگر ہماری سیاسی جماعتوں کی تنظیمیں ہوتیں تو ان کے عہدیدار یہ مرحم رکھ سکتے تھے لیکن ہم خدمت کے لیے ورکر تیار نہیں کرتے صرف سیاسی گیدرنگ کے لیے سیاسی ورکر تیار کیے جاتے ہیں چونکہ پاکستان میں الیکشن بہت قریب ہیں اس لیے ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی انداز میں الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہے عمران خان تو کھل کر الیکشن کمپین کر رہے ہیں اور اس کے ثمرات بھی سمیٹ رہے ہیں رجیم چینج کے بعد عمران خان کی مقبولیت ریکارڈ قائم کرتی جا رہی ہے اگر کہا جائے کہ وہ ساونڈ بیرئیر کراس کر چکی ہے تو بے جا نہ ہوگا وہ ہر الیکشن جیتتے جا رہے ہیں حکومت اور پی ڈی ایم کی سب تدبیریں الٹی پڑ رہی ہیں حکومت نے تحریک انصاف کے کچھ اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر کے ایک چال چلی تھی وہ بھی ان پر الٹی پڑ گئی ہے اب عمران خان تمام نشستوں پر خود امیدوار ہیں لیکن پی ڈی ایم کے کسی لیڈر میں ہمت نہیں کہ عمران خان کا مقابلہ کر لے لیکن ملک میں قدرتی آفات کے بعد فوری الیکشن کا امکان نظر نہیں آتا الیکشن اب 2023 میں ہی ہوں گے البتہ مارچ اپریل کا موسم الیکشن کے لیے موزوں دکھائی دے رہا ہے عمران خان کو بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ فوری الیکشن کا ماحول نہیں بن پا رہا لیکن وہ عوام کو مسلسل چارج رکھنا چاہتے ہیں اور جب تک الیکشن نہیں ہو جاتے عمران خان کی عوامی رابطہ مہم اسی طرح جاری رہے گی۔

خان کو اپنی حکومت جانے کا ملال ضرور ہے لیکن اب وہ اپوزیشن کو انجوائے کر رہے ہیں عوام میں مقبولیت کا بھی اپنا ہی نشہ ہے اور یہ اس حکومت سے ہزار درجے بہتر ہے جس کی عوام میں پذیرائی نہ ہو عمران خان ہر روز جلسے کر کے اپنی مقبولیت کو انجوائے کر رہے اور مخالفین کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہیں عمران خان کے تمام سیاسی حریف اکھٹے ہو کر بھی اس کا مقابلہ کرنے سے گھبرا رہے ہیں پہلے پیپلزپارٹی سمجھتی تھی کہ ان کو سندھ میں کوئی خطرہ نہیں جو بھی ہو گا پنجاب میں ہو گا اس کا سارا نقصان مسلم لیگ ن کو اٹھانا پڑے گا لیکن اب سندھ میں بھی پیپلزپارٹی کے پاوں تلے سے زمین کھسک رہی ہے خیبر پختون خواہ میں مولانا فضل الرحمن کی سیاست ڈانواں ڈول ہے اے این پی کی بھی دال نہیں گل رہی یوں سمجھیں کہ عمران خان تینوں صوبے فتح کر چکا البتہ بلوچستان کی سیاست میں بڑی جماعتوں کی کوئی زیادہ دلچسپی نہیں عمران خان درست کہتے ہیں کہ وہ اپنے مخالفین کے لیے ہرآنے والے دن میں خطرناک ہوتا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں عمران خان کی مقبولیت کے ریکارڈ قائم ہو رہے توں توں عمران خان کے لیے بھی خطرات شدید ہوتے جا رہے ہیں ایسی صورتحال میں عمران خان کی زندگی کو حقیقی خطرہ لاحق ہے کیونکہ اگر ماضی کے حالات کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو پاکستان میں پاپولر لیڈر شپ کسی کے وارہ میں نہیں نہ بین الاقوامی قوتوں کے لیے اور نہ ہی لوکل قوتوں کے لیے کوئی جتنا مرضی کہے کہ الیکشن میں یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران پکڑائی نہیں دے رہا اسے صرف مار کر ہی پاکستانی سیاست سے نکالا جا سکتا ہے بلکہ مار کر بھی نہیں نکالا جاسکتا لیکن اس صورت میں تحریک انصاف کو قابو ضرور کیا جاسکتا ہے لیکن اب جو مرضی کر لیں الٹے ہو جائیں سیدھے ہو جائیں عمران کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور اگر ایسی صورتحال میں الیکشن ہو جاتے ہیں تو عمران خان کو دو تہائی اکثریت لینے سے کوئی نہیں روک سکتا میں قارئین، صاحب الرائے لوگوں اور فیصلہ کن قوتوں کے سامنے ایک نقطہ نظر رکھ رہا ہوں میرا خیال ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ایسا ماحول قسمت سے دہائیوں کے بعد بنتا ہے سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں بلکہ عمران خان کے مخالفین تو کہتے ہیں اس نے قوم کو تقسیم کر دیا ہے اور بدتمیز بنا دیا ہے لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ عمران خان نے پوری قوم کو اکھٹا کر دیا ہے خیبر سے کراچی تک اور گلگت بلتستان سے لے کر آزاد کشمیر تک اس وقت لوگ اس کے ساتھ ہیں پاکستان جیسے تقسیم در تقسیم معاشرے میں جہاں ایک گھر کے تمام افراد کا ایک بات پر اتفاق نہیں ہوتا وہاں یہ اللہ کا کرم ہے کہ معاشرے کا بہت بڑا حصہ ایک نظریہ پر اکھٹا ہو چکا ہے۔

تحریک انصاف عمران خان کی صدارت میں وفاق کی مضبوط ترین سیاسی جماعت بن چکی ہے عمران خان نے قوم کو اکھٹا کر لیا ہے بجائے اس کے کہ عمران خان کو قابو کرنے اسے ختم کرنے کے پلاننگ کرنے کے ہم اس پیدا شدہ ماحول سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ایسا ماحول دہائیوں کے بعد پیدا ہوتا ہے قائد اعظم نے قوم کو اکھٹا کر کے علیحدہ وطن حاصل کر لیا ایوب خان نے قوم کو اعتماد میں لے کر ترقی کے زینے پر چڑھا دیا ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو اکھٹا کرکے سیاسی شعور دیا اس کے بعد آج تک تمام سیاسی جماعتیں اور لیڈر شپ قوم کو تقسیم کر کے اپنا الو سیدھا کرتی رہیں ہم نے ہر معاملے میں معاشرے کو تقسیم کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیااب چالیس پینتالیس سال بعد اگر ایک موقع بن رہا ہے تو خدارا اسے ضائع نہ کریں فیصلہ کرنے والی قوتیں عمران خان سے کام لیں اور جو کام ہمیں تقسیم کر کے نہیں ہونے دیے گئے ان کو پایہ تکمیل کی طرف لے کر جائیں بکھری ہوئی قوم اور کمزور لیڈر شپ تو دنیا کو سوٹ کرتی ہے لیکن پاکستان صرف اور صرف یکجہتی کے ساتھ ہی ترقی کے ٹریک پر چڑھ سکتا ہے اس وقت عمران خان واحد لیڈر ہےجو سارے صوبوں میں ہم آہنگی پیدا کر کے مسائل حل کر سکتا ہے قوموں پر یہ وقت کبھی کبھی آتا ہے اگر ہم نے اس وقت سےفائدہ نہ اٹھایا تو شاید اگلے 25،30 سال تک پھر ہمیں انتظار کرنا پڑے نیو یارک جیسے بڑے شہر میں کرائم بہت زیادہ تھا بلکہ یوں سمجھیں کہ وہاں انڈر ورلڈ کا راج تھا وہاں کے اداروں نے انڈر ورلڈ سے ایک بندہ اٹھایا اس کی گرومنگ کی اور پھر اسے نیو یارک کا میئر بنا دیا گیا جس نے نیو یارک میں امن قائم کر دیا قومیں اس طرح راستے بناتی ہیں ہمیں تو اللہ کی طرف سے موقع مل رہا ہے اس سے ہم فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے۔