182

آزادی میلہ اور تحریک انصاف

یوم آزادی کی چاند رات بھی قابل دید تھی لاہور کی سڑکوں پر منچلوں کا راج تھا یا تحریک انصاف کی بہار تھی تحریک انصاف نے آزادی میلے کو خوب انجوائے کیا ایسے تاریخی موقع پر تحریک انصاف نے بھر پور عوامی قوت کا مظاہرہ کیا اور جشن آزادی منانے والوں نے بھی خوب ساتھ دیا سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے پورے ملک میں ایسے لگ رہا تھا جیسے تحریک انصاف کے علاوہ کوئی اور عوامی سیاسی جماعت نہیں کسی سیاسی جماعت نے ڈائمنڈ جوبلی یوم آزادی کیش کروانے کی کوشش نہیں کی وفاقی حکومت میں ہونے کے باوجود پی ڈی ایم کی کوئی بھی سیاسی جماعت پبلک میں نہ جا سکی اور کچھ نہیں تھا تو تحریک انصاف کے جلسے کے مقابلے میں یوم آزادی کے نام پر ورکرز کنونشن ہی رکھ لیتے ان سے بہتر تو شیخ رشید رہا جس نے لال حویلی کے باہر میلہ لگا لیا ملک کا 75 واں یوم آزادی عمران خان کے نام رہا وہ رات گئے تک ملک کے میڈیا پر بھی چھایا رہا ملک بھر سے لوگ اس کو سنتے رہے اور اس پر تبصرے بھی ہوتے رہے پی ڈی ایم کی جماعتوں کی سیاست سے لگتا ہے کہ عوامی سطح پر وہ عمران خان کے سامنے سرنڈر کر چکی ہیں انھیں اندازا ہو گیا ہے کہ عوامی سطح پر شاید عمران خان کا مقابلہ مشکل ہے اس لیے پی ڈی ایم عوامی محاذ سے دستبردار ہو کر انتظامی محاذ پر مورچہ زن ہے انھیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ عمران خان لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکے ہیں لہذا اب ساری حکومت پی ڈی ایم کی ساری سیاسی جماعتیں اور حکومت کے تمام تر ادارے اس پر تحقیق کر رہے ہیں سوچ وچار ہو رہی ہے کہ عمران خان کو کیسے قابو کیا جائے۔

پوری دنیا سے عمران خان کے خلاف چیزیں ڈھونڈی جا رہی ہیں حکومت ملک نہیں چلا رہی عمران خان کو بھگانے کے جتن کر رہی ہے عمران خان کو نا اہل کرنے تحریک انصاف کو کٹ ٹو سائز کرنے کے لیے تمام تر توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں پی ڈی ایم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ عمران خان کو قابو کیے بغیر وہ عوام میں نہیں جائیں گے عمران خان نے اگر عقلمندی کے ساتھ حالات کو فیسں کیا اور کوئی بلنڈر نہ کیا تو بے شک یہ جتنی مرضی تاخیر کر لیں عمران خان کو دوتہائی اکثریت لینے سے اب کوئی نہیں روک سکتا کوئی حکومت عوام کو مطمئن کرنے کی پوزیشن میں نہیں لہذا ہر آنے والے دن میں حکومت کو کلام بخشتے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا حکومت کی پوری کوشش ہے عمران خان کو جذباتی کر کے اس سے بڑی غلطی کروائی جائے اور اس سے فائدہ اٹھا کر اس کے خلاف کارروائی کی جائے عوام میں اس وقت عمران کے کھمبے جیتنے والا ماحول بن چکا ہے عمران خان کو صرف الیکشن تک یہ ماحول برقرار رکھنا چاہیے باقی سب ٹھیک ہے اس وقت تحریک انصاف کو ڈمیج کرنے کے لیے تحریک انصاف کے ناراض لوگوں پر مشتمل بڑے سرمایہ داروں کے ذریعے تحریک انصاف کے نام سے ملتی جلتی نئی سیاسی جماعت بنوانے کی کوشش کی جا رہی ہے جنوبی پنجاب پر خصوصی کام کیا جا رہا ہے تحریک انصاف کے بڑے ناموں کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن عمران خان کی مقبولیت کا جادو کسی کو رسک لینے نہیں دے رہا سیاسی مارکیٹ میں اس وقت صرف پی ٹی آئی کے شئیر کے بھاو اوپر جا رہے ہیں اس لیے کوئی بھی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا گھاٹے کا سودا کیونکر کرے گا کیونکہ سب کو پتہ ہے اس وقت جو بھی عمران خان سے علیحدہ ہوا اس کی سیاست ختم ہو جائے گی اس لیے اب عمران خان کو چھوڑ کر جانے کا کوئی رسک نہیں لے گا یہ علحیدہ بات ہے کہ عمران خان خود کسی کو نکال دیں تحریک انصاف کے لوگوں نے آدھا الیکشن تو ویسے ہی جیت لیا ہوا ہے کیونکہ وہ تسلسل کے ساتھ عوامی رابطوں میں ہیں وہ آدھی الیکشن کمپین کر چکے ہیں جبکہ ان کے مخالفین الیکشن سے گھبرانے ہوئے ہیں اور دوڑ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں اب حکومت نے تحریک انصاف کو ایک اور موقع فراہم کر دیا ہے جن 9حلقوں میں ضمنی الیکشن ہو رہا ہے وہاں جو کمپین ہو رہی ہے وہ تو ہو ہی رہی ہے لیکن اس کے علاوہ عمران خان نے بڑے شہروں میں پورے ملک میں جلسے کرنے کا اعلان کر دیا ہے ان کے ورکرز متحرک ہیں حالت یہ ہے کہ عمران خان دوگھنٹے کے نوٹس پر جلسہ کر لیتا ہے جبکہ مخالف سیاسی جماعتیں ایک جلسہ کرنے کے لیے مہینوں تیاری کرتی ہیں تحریک انصاف نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تمام ورکرز کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے عمران خان کا ایک میسج چند منٹوں میں کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔

دوسری جانب سیاسی محاذ آرائی بھی عروج پکڑ رہی ہے ہمیشہ انتشار کی سیاست کا نقصان حکومت کو ہوتا ہے حکومت سمجھ رہی ہے کہ وہ انتقامی کارروائیوں کے ذریعے تحریک انصاف کو دبا لے گی تو تحریک انصاف کے ورکرز دباو کی سٹیج سےبہت آگے نکل آئے ہیں وفاقی حکومت ابھی تک یکطرفہ کارروائیوں میں مصروف ہے انھیں یہ اندازہ نہیں کہ اب پنجاب ان کے پاس نہیں اور جب چوہدری پرویز الہی نے اپنے داو پیج آزمائے تو کیا ماحول پیدا ہو گا جب پنجاب حکومت ان ایکشن ہو گی تو کیا ہو گا مسلم لیگ ن کے تو سابق کھاتے ہی کافی ہیں اور مسلم لیگ ن کا ورکر تو چوری کھانے والا مجنوں ہے مجھے تو بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مرکز اور پنجاب میں کس گھمسان کی لڑائی ہونے والی ہے ویسے مسلم لیگ ن کو عثمان بزدار کا مرہون منت ہونا چاہیے کہ انھوں نے ساڑھے تین سال تک ن لیگ کو تتی ہوا بھی نہیں لگنے دی مسلم لیگ ن چوہدری پرویز الہی کی صلاحیتوں سے بھی بخوبی واقف ہے وہ ابھی اپنی سیاسی بساط بچھا رہے ہیں چند روز بعد صورتحال واضح ہو گی کہ کون کہاں کھڑا ہے اللہ خیر کرے محاذ آرائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ جب معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف چلے جائیں تو فائدہ کس کو ہوتا ہے اگر سیاستدانوں نے اپنی ڈاڑھی کسی اور کے ہاتھ میں دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔