171

پون صدی کا قصہ

قوم کو 75 واں یوم آزادی مبارک ہو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس یوم آزادی کو یادگار بناتے قومی سطح پر خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ملک کو آگے کس طرح لے کر جانا ہے اس حوالے سے بحث مباحثے ہو رہے ہوتے کیا کھویا کیا پایا کا کوئی حساب کتاب ہو رہا ہوتا اگلے 25 سال کی پلاننگ ہو رہی ہوتی سو سالہ جشن پر پاکستان کیسا ہو گا ہمیں آگے بڑھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے اس پر ہمارے تھنک ٹینک سوچ وچار کر رہے ہوتے لیکن یہ سوچیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب پیٹ میں کھانا موجود ہو جب ذہنی ہم آہنگی ہو جب آگے بڑھنے کا جذبہ ہو جب قومی یکجہتی ہو جب قومی سوچ ہو جب لیڈر شپ کو اپنا نہیں قوم کا خیال ہو پھر آگے بڑھا جا سکتا ہے جس ملک میں سربراہ مملکت سے لے کر معمولی سے ملازم کی بھی یہ سوچ ہو کہ اس کاکس کام میں ذاتی مفاد ہے وہاں قومی سوچ پیدا ہی نہیں ہو سکتی انتہائی بدقسمتی ہے کہ ہم نے پاکستان کے بننے کے ساتھ ہی لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا جعلی کلیموں اور جعلی ذاتوں سے شروع ہونے والی وارداتوں نے ایسے گل کھلائے کہ پھر معاملات ہم سے سنبھالے نہ گئے لیکن چونکہ پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا ایک اقلیت لوٹ مار میں ملوث تھی لیکن غالب اکثریت حصول پاکستان کے مقاصد کے لیے سرگرم تھی لوگوں میں قومی یکجہتی تھی ملک وقوم کا درد تھا یہی وجہ تھی کہ پاکستان ایک وقت میں جنوبی ایشیا کا رول ماڈل ہوتا تھا تائیوان، چین ملائیشیا اور دیگر کئی ممالک ہمارے منصوبوں کی تقلید کرتے تھے جرمنی سمیت کئی ممالک کی ہم نے مالی مدد کی ہوئی ہے۔

متعدد ملکوں کی ائیر لائنز ہم نے کھڑی کی ہیں پی آئی اے دنیا کی صف اول کی ائیر لائن سمجھی جاتی تھی چین ہماری بیکو فیکٹری سے اتنا متاثر تھا کہ چینی قیادت نے فیکٹری کے وزٹ کے موقع پر کہا کہ اگر چین کے پاس ایسی ایک فیکٹری ہو تو چین کوترقی سے کوئی نہیں روک سکتا ایک وقت تھا پاکستان کا ہر شعبہ ترقی کرتا دکھائی دیتا تھا پاکستان کا کھیلوں میں نمایاں مقام تھا پاکستان میں انڈسٹری تیزی سے پھیل رہی تھی پھر لوٹنے والے اکثریت میں آگئے اور ملک وقوم کا سوچنے والوں کو پاگل سمجھا جانے لگا بدقسمتی اس وقت شروع ہوئی جب لیڈر شپ لوٹ مار میں شریک ہو گئی پھر ہم نے دیکھا کہ تمام سرکاری شعبے زوال کا شکار ہو گئے اور لوگوں کے ذاتی ملکیتی ادارے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگے اور سرکاری ادارے تباہ ہونے لگے سرکاری ملازم ریاست کا داماد بن گیا آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے قومی اثاثے محض اس لیے فروخت کیے جا رہے ہیں کہ وہ ہم سے چل نہیں پا رہے ان کا ہر سال خسارہ بڑھتا جا رہا ہے اور ہم قومی اثاثوں کو قومی بوجھ قرار دے کر ان سے جان چھڑوا رہے ہیں معاشرے میں تقسیم اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ہماری مساجد سے لے کر مدرسوں تک اور ذاتوں برادریوں سے لے کر فرقوں تک محلوں سے لے علاقوں تک اور پھر بولیوں سے لے کر رنگ ونسل تک ہر جگہ تقسیم در تقسیم ہو چکے ہیں قومی سطح سے لے کر خاندانوں تک کوئی کسی کی بات برداشت نہیں کرتا نظم وضبط نام کی شے ناپید ہو چکی ہے حالت یہ ہے کہ آج جب ہم 75 واں یوم آزادی منا رہے ہیں تو ملک میں سیاسی انتشار عروج پر ہے نہ جانے اگلے لمحے کیا ہو جائے کچھ پتہ نہیں قومی سیاسی قیادتیں دست وگریبان ہیں ذاتی اناوں کے لیے قومی مفادات قربان کیے جا رہے ہیں غیر یقینی کی صورتحال نے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔

سیاسی لڑائیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ملک ہر آنے والے دن پستی میں دھنستا جا رہا ہے سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ ملک میں انتظامی بحران معاشی بحران، انرجی بحران اور سماجی بحران سر اٹھا چکے ہیں ملک ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن قیادتوں کو آپس کی لڑائیوں سے فرصت نہیں غیر یقینی نے محب وطن قوتوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے بے بس عوام تماشہ بنے ہوئے ہیں غربت کی لکیر کے نیچے آبادی کی بڑی تعداد کو روزی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ان کے لیے سانس کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے کاش ہم 75 ویں یوم آزادی پر مل جل کر خوشیاں منا رہے ہوتے ہم قوم کو روشن مستقبل کی نوید سنا رہے ہوتے لیکن بدقسمتی سے آج پھر ملک سے تیزی سے برین ڈرین ہو رہا ہے جن کے پاس دولت کی فروانی ہے ان کو پاکستان پر اعتماد نہیں وہ ایک بار پھر سرمایہ ملک سے باہر شفٹ کر رہے ہیں خدارا کسی کو تو ملک کے بارے سوچنا چاہیے کسی کو تو ڈکا لگانا چاہیے کسی کو تو ہوش کے ناخن لینے چاہیں خدارا ملک کو کھیل تماشوں کی بھینٹ نہ چڑھائیں جو ہو چکا سو ہو چکا ہم نے ہر موقع پر نیا سمجھوتہ کر کے ملک کے مفادات کو دفن کیا یہاں تک کہ ملک کے دو لخت ہونے کے سانحہ پر بھی مٹی ڈال دی گئی پاکستان کی بدقسمتی کہ اس کے ساتھ بڑے سے بڑا ہاتھ کرنے والےبھی دندناتے پھرتے ہیں سزا جزا یتیموں مسکینوں لاوارثوں کے لیے ہے ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو آج تک نہیں پوچھا گیا ہماری ایلیٹ کلاس کا ریاست کے ساتھ شغل میلہ عام سا کھیل ہے ہم بہت کچھ گنوا چکے اب ملک کسی غلطی کا متحمل نہیں ہو سکتا خدارا سمجھ جائیں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہمیں دور حاضر کے تقاضوں کو فالو کرنا چاہیے مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک کی لیڈر شپ نے تو ہمیں یوم آزادی کی خوشیاں منانے کا بھی ڈھنگ نہیں سیکھایا آج بھی نوجوان بے سمت شتر بے مہار ہے آج بھی یوم آزادی پر موٹر سائیکل کے بفل نکال کر باجوں کے ذریعے شور مچانا ون ویلنگ کرنے کو جشن آزادی سمجھا جاتا ہے ہر سال 14 اگست یوم حادثات بن جاتا ہے پچھلے سال 250 افراد شاہراوں پر دھینگا مشتی کرتے شدید زخمی ہوئے تھے اور کئی ایک جان کی بازی ہار گئے تھے کئی عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے تھے کیا یہی آزادی کا جشن ہے کاش اس سال ہی ہماری قیادتیں مل کر پون صدی کا یوم آزادی مل کر منالینے کی راہ نکال لیتیں جوانوں کے لیے خصوصی کنسرٹ کروائے جاتے مختلف کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے یوم آزادی پر سفری سہولتیں دی جاتیں سنجیدہ مذاکرے ہوتے تعلیمی اداروں میں یوم آزادی پر تقریبات کا خصوصی اہتمام کیا جاتا کیا کس شعبے میں کیا ہو سکتا ہے پر ریسرچ کروائی جاتی لیکن ہم آج یوم آزادی کے دن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے تباہ و برباد کرنے گرفتار کرنے نااہل کرنے بدنام کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں دنیا ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے ہم پر تھو تھو کر رہی ہے اور ہم ڈائمنڈ جوبلی منا رہے ہیں اللہ ہم پر رحم فرمائے۔