ملک میں حالات اتنی تیزی سے پلٹا کھا جائیں گے کسی نے سوچا بھی نہ تھا پنجابی میں کہتے ہیں کدی چاچے دیاں کدی بابے دیاں چند ماہ میں ہونے والی سیاسی سرگرمیاں تو اکھاڑے میں کشتی معلوم ہوتی ہے کبھی ایک پہلوان نیچے تو کبھی دوسرا نیچے دیر بعد آنے والے پہلوان نے ابھی صیح طرح رگڑا بھی نہیں لگایا تھا کہ نیچے والے پہلوان نے ایسا داو مارا اب اوپر بیٹھا پہلوان چیخیں مار رہا ہے کیونکہ اسے آنے والے حالات کا اندازا ہو رہا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والی ہے یہاں تو نکالے جانے والوں کو ایک لمبے عرصے تک پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن تحریک انصاف کا معاملہ کچھ الٹ ہے مختصر سی سیاسی جدوجہد کے بعد تحریک انصاف کا نیا جنم ہوا ہے دراصل ہمارے روائیتی سیاستدانوں نے کبھی عوام پر اعتماد نہیں کیا ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان دوسرا بندہ ہے جس کو عوام کی طاقت پر اعتماد ہے لیکن بھٹو کی بدقسمتی کہ اس کو لبرل ازم لے بیٹھا عمران خان کی خوش قسمتی کہ لوگ اس کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں عمران خان کا ہر وار کارگر ہتھیار ثابت ہوتا ہے جبکہ اس کے مخالفین کا ہر وار ٹھس ہو جاتا ہے عمران خان کو جب نظر آنا شروع ہو گیا کہ اس کے اقتدار کی بساط لپیٹی جا رہی ہے تو انھوں نے ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے براہ راست عوام سے رابطہ کیا اور اقتدار سے نکلنے سے پہلے ہی وہ عوام کو باور کروا چکے تھے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔
جب پی ڈی ایم نے عدم اعتماد کا ڈھول ڈالا تو لوگوں کو یقین ہو گیا کہ عمران خان کے خلاف سازش ہوئی ہے پی ڈی ایم نے پوری کوشش کی کہ عمران خان کے بیانیہ کو کارنر کیا جائے لیکن عوام نے ان کا ہر حربہ کھوہ کھاتے ڈال دیا اوپر سے پی ڈی ایم کی بدقسمتی کہ جس مہنگائی کو ایشو بنا کر عمران خان کی حکومت ختم کی گئی تھی ان سے نہ صرف کنٹرول نہ ہو سکی بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ نے عوام کی چیخیں نکلوا دیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بجلی گیس روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں تصور سے زیادہ اضافہ نے پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف ایسی نفرت کھڑی کر دی کہ لوگوں کو حکومت کی ہر بات جھوٹی لگنے لگی اب پی ڈی ایم والے لاکھ واویلا کر لیں کہ موجودہ مہنگائی کا ذمہ دار عمران خان کی حکومت کی پالیسیاں ہیں کوئی ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہر کوئی کہتا ہے عمران خان کے دور میں اچھا خاصا ملک چل رہا تھا انھوں نے آ کر بیڑا غرق کر دیا ہے اچھے بھلے کاروبار چل رہے تھے اب تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے پورا ملک ہی جام ہو گیا ہے روپے کی بے قدری اور ڈالر کی عدم دستیابی نے تو معاشرے کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ایسے میں پی ڈی ایم کی تمام سیاسی جماعتیں مل کر واویلا مچاتی ہیں کہ عمران خان نے توشہ خانہ میں کیا کیا فرح گوگی یہ کر گئی فلاں یہ کر گیا فلاں وہ کر گیا فارن فنڈنگ سیاست میں استعمال ہوئی لیکن سب بے کار ایسے لگتا ہے عوام نے عمران خان کے خلاف اپنے کان بند کر لیے ہیں وہ کسی بات پر دھیان ہی نہیں دیتے لوگ عمران خان کے خلاف ٹس سے مس نہیں ہو رہے حکومتی عہدیداروں کی دن رات کی پریس کانفرنسیں بیان بازیاں حکومتی زیر اثر صحافیوں کے تمام تر بیانیے فرضی قصے کہانیاں سب رائیگاں جا رہے ہیں بے چارےملازمین سوشل میڈیا پر بھی دن رات ایک کیے ہوئے ہیں لیکن وہ تمام ٹرینڈ بھی بےکار جارہے ہیں ہر چنگاڑی ٹھس ہو جاتی ہے شعلے بھی آگ نہیں پکڑ رہے پی ڈی ایم کی ساری جماعتوں کا مستقبل داو پر لگ چکا ہے نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے اب ایک دوسرے کو طعنے دیے جا رہے ہیں کہ تم نے کہا تھا عمران خان کو نکالو دوسرا کہتا ہے تم نے کہا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اپنے ہاتھوں پر دندیاں کاٹ رہے ہیں کہ ہم یہ کیا کر بیٹھے اچھا بھلا عمران لوگوں کی گالیاں سمیٹ رہا تھا لیکن ایک غلط سیاسی فیصلے نے عمران خان کو دوبارہ سے ہیرو بنا دیا اور پی ڈی ایم ساری کی ساری توپوں کے دہانے پر آگئی عمران خان کے خلاف تمام تر الزامات کے بیانیے گھڑنے انتظامی اقدامات کرنے مقدمات قائم کرنے پی ٹی آئی ورکرز کو فکس کرنے کے باوجود پنجاب کے ضمنی انتخابات میں لوگوں نے اسے دوتہائی اکثریت سے نواز دیا حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو اب اپنا قلعہ بچانا مشکل ہو رہا ہے لاہور سیاسی طور پر مسلم لیگ ن کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے ضمنی الیکشن میں پنجاب کے عوام نے فیصلہ دے دیا ہے کہ وہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت دیکھنا چاہتے ہیں مسلم لیگ ن نے پنجاب پر ہر صورت حکمرانی قائم رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن بےکار گیا کیونکہ نہ تو پہلے ن لیگ کے پاس اقتدار کا مینڈیٹ تھا پہلے بھی تحریک انصاف کے 25 ارکان کی وفاداریاں خرید کر حکومت بنائی گئی اور پھر ان کے ڈی سیٹ ہونے پر عوام نے بھی ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے حق میں ووٹ دے کر ن لیگ کو مسترد کر دیا آخری جگاڑ کے طور پر چوہدری شجاعت حسین کی ساری عمر کی وضعداری کی سیاست کو بھی دفن کرنے سے گریز نہ کیا لوگ اس پر طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں لیکن مجھے اس حوالے سے بہت دکھ ہے کہ زرداری اور شہباز شریف کی ضد نے چوہدری شجاعت کی ساری عمر کی کمائی کھوہ کھاتے ڈال دی ہے عمر کے آخری حصے میں جبکہ وہ صیح طریقے سے سوچ سمجھ بھی نہیں سکتے ان کو ٹریپ کر کے ان سے وہ والا کام کروالیا جس سے نہ صرف ان کا خاندان تقسیم کر دیا بلکہ رواداری کی سیاست کا چراغ بھی گل کر دیا لوگوں کو اب یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان میں سب کچھ مفادات ہی ہیں لالچ انسان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے پی ڈی ایم کو پتہ تھا کہ اب پنجاب میں واضح اکثریت تحریک انصاف اور ق لیگ کو حاصل ہو چکی ہے اور چوہدری شجاعت یہ کہہ چکے کہ حکمرانی اکثریت والوں کا حق ہے اور پھر انھوں نے خود کہا کہ چوہدری پرویز الہی ق لیگ کے وزارت اعلی کے امیدوار ہیں سب لوگ انھیں ووٹ دیں اگر انھوں نے خط لکھنا تھا تو وہ پرویز الہی امیدوار ہی نہیں بن سکتے تھے عملی طور پر ایسا ممکن ہی نہیں اگر چوہدری شجاعت کے خط کے اخلاقی جواز کو تسلیم کر لیا جائے تو پرویز الہی تو امیدوار ہی نہیں بن سکتے تھے پھر الیکشن کیسا ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ انتہائی مضحکہ خیز تھی پہلے اعلان کر رہے ہیں کہ پرویز الہی نے 186 ووٹ حاصل کیے ہیں اور ساتھ ہی کہہ رہے ہیں کہ ق لیگ والے ووٹ نہیں دے سکتے ق لیگ کے ووٹرز کو اندھیرے میں رکھ کر جگاڑ لگانے کا نہ کوئی قانونی جواز بنتا تھا نہ ہی کوئی اخلاقی جواز اس ڈھکوسلے نے پی ڈی ایم کی سیاست کو مزید خراب کیا ہے۔
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زرداری اور شریفس نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے چوہدری شجاعت کو استعمال کیا ہے میں چوہدری شجاعت کی حالت کا اندازا لگا سکتا ہوں کہ وہ کس کرب سے گزر رہے ہوں گے پی ڈی ایم نے چوہدریوں کے خاندان کا شیرازہ بکھیرنے کے بعد فیصلہ دینے والی پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کو اپنی ہٹ لسٹ پر رکھ لیا ہے اور آج کل توپوں کے منہ عدلیہ کی طرف کر دیے گئے ہیں یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ پی ڈی ایم کیوں فل کورٹ پر زور دے رہی تھی وہ دراصل وقت حاصل کرنا چاہتی تھی انھیں علم تھا کہ ستمبر سے پہلے فل کورٹ نہیں بن سکتا ان کا خیال تھا کہ عدالت حمزہ شہباز کو ستمبر تک ٹرسٹی وزیر اعلی رہنے دے لیکن کہتے ہیں جب رب مہربان تو کل مہربان آج کل عمران خان کا طوطی بول رہا ہے ایسے لگتا ہے جیسے اس نے عوام پر جادو کر رکھا ہے اور حالات بھی اس کی فیور میں جا رہے ہیں حکومت الیکشن میں جانے کے لیے عمران خان کے خلاف چیزیں اکھٹی کر رہی ہے اب عدالت کو بھی ٹارگٹ کر لیا ہے کہ شاید یہ والا بیانیہ فروخت ہو جائے کہ ادارے عمران کو فیور کر رہے ہیں خوفزدہ اتنے ہیں کہ عمران کہیں عدم اعتماد کر کے دوبارہ وزیر اعظم نہ بن جائے اس لیےتحریک انصاف کے 11 اراکین کو ڈی سیٹ کر دیا ہے انھیں اتنا پتہ نہیں کہ صدر بھی وزیر اعظم سے اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں پی ڈی ایم اقتدار کے ایوانوں میں اتنی بری طرح پھنس چکی ہے کہ نہ اس کا تسلسل برقرار رکھ سکتی ہے نہ چھوڑ سکتی ہے کیونکہ اگر تسلسل برقرار رکھتی ہے تو ہر آنے والے دن میں اس کی ساکھ خراب ہو رہی ہے چھوڑتی ہے تو عوام میں جانے کے قابل نہیں کرے تو کیا کرے اس تذبذب میں ملک کا ستیاناس ہو رہا پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد اب جلد الیکشن کی راہ ہموار ہو گئی ہے وفاقی حکومت کو زیادہ دیر تک پنجاب میں تحریک انصاف اور ق لیگ کی حکومت برداشت نہیں اب جب چوہدری پرویز الہی نے اپنے پر پرزے نکالے تو انھیں لگ پتہ جائے گا اب یہ مذاکرات کی ٹیبل کی طرف آئیں گے۔