240

کیو گارڈنز

بہاول پور کے ایس ای کالج میں پروفیسر ڈاکٹر دولت علی زیدی بی ایس سی کے پہلے سال میں ہمیں باٹنی اور زوالوجی پڑھایا کرتے تھے جبکہ ایف ایس سی میں وہ ہمارے بائیولوجی کے استاد تھے۔ زیدی صاحب ایس ای کالج کے گیارہ برس تک پرنسپل بھی رہے۔ وہ بہت قابل استاد اور شاندار انسان تھے۔ اللہ رب العزت انہیں ہمیشہ خوشحال اور صحت مند رکھے۔ وہ آج کل فیصل آباد میں مقیم ہیں، ایک بار لیکچر کے دوران انہوں نے دنیا کے چند منفرد اور مشہور بوٹینیکل گارڈنز کے بارے میں بتایا جن میں لندن کا کیوگارڈنز بھی تھا۔ اس وقت میرے دل میں ایک حسرت جاگی کہ کاش میں بھی اس کیو گارڈنز کو دیکھ سکوں۔ قدرت کے کرشمے بھی عجیب ہوتے ہیں کہ بعض حسرتیں اس وقت پوری ہوتی ہیں کہ جب انسان انہیں یکسر فراموش کر چکا ہوتا ہے۔ کالج میں تعلیم کے دوران میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہجرت کے بعد میری باقی تمام عمر لندن میں ہی گزرے گی۔ 1993ء میں برطانیہ آنے کے بعد میں نے لندن کو چند ماہ تک سیاحوں کی طرح دریافت کیا۔ ہر وہ جگہ اور مقام دیکھا جسے دیکھنے کا سیاحوں کو تجسس ہوتا ہے۔ جب میں پہلی بار کیوگارڈنز دیکھنے گیا تو قدم قدم پر میری حیرانی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ویسے تو امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، سنگاپور، برازیل، ماریشس، ناروے اور ساؤتھ افریقہ کے بہت سے بوٹینیکل گارڈنز اپنی کئی منفرد خصوصیات کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن جو بات لندن کے کیوگارڈنز کی ہے وہ کئی اعتبار سے دلچسپ اور اہم ہے۔ 1840ء میں بنایا جانے والا یہ رائل بوٹینیکل گارڈن اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ورلڈ ہیریٹیج میں شامل ہے۔ اس باغ میں پچاس ہزار سے زیادہ اقسام کے مختلف پودے اور درخت لگے ہوئے ہیں جن میں کپاس سے لے کر گنے تک کے پودے شامل ہیں۔

دنیا بھر کے مختلف براعظموں میں پیدا ہونے والے ان پودوں اور درختوں کو ان کے قدرتی ماحول کے مطابق رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر رین فاریسٹ یعنی برساتی جنگلوں میں پروان چڑھنے والے نباتات کو بڑے بڑے گلاس ہاؤس بنا کر ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے کہ وہاں وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہتی ہے اور درجہ حرارت کو بھی حسب ضرورت کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس حصے میں جا کر یوں لگتا ہے کہ آپ واقعی کسی رین فاریسٹ میں آ گئے ہیں۔ رچمنڈ کے علاقے میں تین سو ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے اس باغ میں مختلف اقسام کے سات ملین پودوں کے نمونے محفوظ ہیں جبکہ کیوگارڈنز کی لائبریری میں نباتات کے بارے میں تقریباً سات لاکھ پچاس ہزار کتابیں اور ان کے بارے معلومات موجود ہیں۔ اسی طرح 40ہزار سے زیادہ پودوں اور درختوں کے بیج یہاں محفوظ کئے گئے ہیں۔اس باغ میں سب سے نایاب اور قدیم پودا (JURASSIC CYCAD) ہے جو ایک ماہر نباتات فرانسس میسن (FRANCIS MASON) 1775ء میں جنوبی افریقہ سے برطانیہ لایا تھا جسے کیو گارڈنز کے قیام کے بعد یہاں ایک بہت بڑے پاٹ میں محفوظ کیا گیا اور یہ پودا اب تک پھل پھول رہا ہے۔ کیوگارڈنز کو گذشتہ برس 23لاکھ سے زیادہ لوگ ٹکٹ خرید کر دیکھنے کے لئے آئے۔ اس باغ کا انتظام ایک غیر سرکاری ٹرسٹ کے پاس ہے اور اس کا سالانہ بجٹ تقریباً ساڑھے پینسٹھ ملین پاؤنڈز ہے۔ اس باغ کی دیکھ بھال کے لئے ایک ہزار سے زیادہ لوگ یہاں کل وقتی ملازم ہیں جن میں وہ پولیس فورس (کیو کانسٹیبلری) بھی شامل ہے جسے لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس جتنے اختیارات حاصل ہیں۔

انسان دشمن لوگوں کی طرح بہت سے لوگ نباتات دشمن بھی ہوتے ہیں۔ اسی لئے یہاں پولیس فورس کی تعیناتی ناگزیر سمجھی گئی۔ 20فروری 1913ء میں یہاں ٹی ہاؤس سیکشن کے بہت سے پودوں پر دو نباتات دشمن لوگوں نے تیزاب چھڑک کر اس حصے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جنہیں بعد ازاں گرفتارکر کے 18ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ اسی طرح 2014ء میں یہاں کی پرنس آف ویلز کنزرویٹری سے واٹر للی(کنول) کے وہ پودے چوری کر لئے گئے جن کے نایاب بیج روانڈا سے لا کر یہاں اگایا گیا تھا اور یہ دنیا میں کنول کے سب سے چھوٹے پودے شمار کئے جاتے تھے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران اس باغ کو تباہی اور حملوں سے محفوظ رکھنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے لیکن اس کے باوجود دوسری جنگ عظیم کے دوران یہاں 30بم گرے جن سے کیو گارڈنز کے بڑے حصے کو نقصان پہنچا جس کی بحالی میں بہت وقت لگا۔ شاہی خاندان کی ایک سرخ رہائشی عمارت بھی کیوگارڈنز کا حصہ ہے جسے کوئین وکٹوریہ نے عطیہ کیا تھا۔ کیوگارڈنز کے قیام کی 250ویں سالگرہ پر 2009ء میں رائل منٹ نے پچاس پنس کا ایک خصوصی سکہ جاری کیا جو اس وقت برطانیہ میں پچاس پنس کا نایاب ترین سکہ ہے اور جس کی قیمت تقریباً ایک سو پاؤنڈ ہے۔ اس سکے پر کیوگارڈنز کے گریٹ پگوڈا کی تصویر ہے جو کہ اس باغ کی خاص پہچان بھی ہے۔ یہ پگوڈا 1761ء میں سر ولیم چیمبرز نے شہزادی آگسٹا کے لئے تعمیر کروایا تھا۔ اس دس منزلہ مینار کی بلندی 163فٹ ہے اور 253سیڑھیاں چڑھنے کے بعد اس کی سب سے بالائی منزل سے پورے کیوگارڈنز کا نظارہ کرنا ایک مسحور کر دینے والا تجربہ ہوتا ہے۔ اس باغ میں چونکہ دنیا بھر سے لائے گئے پودے اور درخت اگائے گئے ہیں اس لئے یہاں دس مختلف کلائمیٹ زون بنائے گئے ہیں۔ صحراؤں، پہاڑوں، میدانوں، سمندروں، دریاؤں اور برساتی جنگلوں میں اگنے والے ہر طرح کے نباتات کو مختلف ایسے زونز(ZONES)میں رکھا گیا ہے جہاں ان کو ان کی قدرتی ضرورت کے مطابق درجہ حرارت اور ماحول میسر آ سکے۔ اسی شاندار حسن انتظام کی وجہ سے یہاں ہزاروں اقسام کے پودے اور درخت کئی دہائیوں سے پروان چڑھ رہے ہیں۔مجھے اس باغ کا سب سے خوبصورت اور شاندار حصہ وہ لگتا ہے جہاں ایک بہت بڑی جھیل کے اندر بہت بڑے بڑے پتوں والے کنول کے پھول(واٹر للی) تیرتے رہتے ہیں۔

اس واٹر للی ہاؤس میں کنول کے پودوں کے گول پتوں کی چوڑائی دو میٹر تک ہے جنہیں دیکھ کر ہر کوئی ششدر اور حیران رہ جاتا ہے اور ان کے درمیان کھلے ہوئے کنول کے گلابی اور جامنی پھولوں کی مہک ایک خاص طرح کی کشش رکھتی ہے۔ میں نے اسی طرح کے کنول کے پھول اور ان کے بڑے بڑے گول پتے ماریشئس کے بوٹینیکل گارڈن میں بھی دیکھے تھے لیکن جس طرح ان کی دیکھ بھال کیو گارڈنز میں کی جاتی ہے اس کا جواب نہیں۔ انگریزوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بھی چیز کو بنا کر اسے بے یارومددگار نہیں چھوڑ دیتے بلکہ اس کی حفاظت، دیکھ بھال اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اس کی تزئین و آرائش میں اضافے کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ باغات ہوں یا عمارات، عجائب گھر ہوں یا ریل گاڑیاں، انگریزوں نے ہر معاملے میں بنانے کے بعد سنوارنے پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کی صدیوں پہلے کی یادگاریں آج بھی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز ہیں جس کی سب سے بڑی مثال کیوگارڈنز ہے جو ڈھائی صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی شاندار طریقے سے قائم و دائم ہے اور ہر برس لاکھوں لوگ دنیا بھر سے اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔انگریز ہر معاملے کو ایک سسٹم کے تحت چلانے کے قائل ہیں۔ کیوگارڈنز ہو یا لندن کا انڈرگراؤنڈ ٹرین نیٹ ورک وہ اس شاندار طریقے سے نظام کو ترتیب دیتے ہیں کہ اداروں کے سربراہ اور منتظم کے بدلنے سے بھی نظام کامیابی سے چلتا رہتا ہے کیونکہ افراد سے زیادہ نظام اہمیت رکھتا ہے۔ اگر آپ کبھی لندن آئیں تو کیوگارڈنز کی سیر کرنا نہ بھولیں۔ اگر آپ فطرت اور نباتات سے محبت کرتے ہیں تو آپ کو یہاں آ کر بہت خوشگوار احساس ہو گا۔ اگر آپ صحرائی پودوں کے زون میں داخل ہوں گے تو آپ کو یوں لگے گا کہ آپ واقعی کسی صحرا میں آ گئے ہیں۔ مجھے تو یہ زون اس لئے بھی اچھا لگا کہ یہاں پہنچ کر مجھے 25ہزار 8سو مربع کلومیٹر پر پھیلا چولستان یاد آ گیا اور ساتھ ہی مجھے باصر کاظمی کا یہ شعر بھی پھر سے یاد آنے لگا:


باغ اک ہم کو ملا تھا مگر اس کو افسوس
ہم نے جی بھر کے اجاڑا ہے سنوارا کم ہے