اسلام ، مُعاشرہ ،نمازاور امامت باہم جُڑے ہیں۔
جب تک نماز کی مُعاشرے کی ویلیُوز میں ٹرانسلیشن نہ ہو یہ نامُکمل ہے کیونکہ اسلام کی رُوح سماجی ہے۔
نماز کی مُعاشرے کی ویلیُوز میں ٹرانسلیشن میں لیڈرشپ کا رول بُنیادی ہے
تبھی اسلام اور امامت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
نماز میں امام کو اجازت ہے کہ قُرآن کی کوئی بھی سُورۃ تلاوت کرے لیکن وہ یہ نہیں کر سکتا کہ سرے سے کوئی سُورۃ ہی نہ پڑھے یا دو کی جگہ تین سجدے کر لے۔ وہ ایساکرے گا تو مُقتدی اُسکی تقلید نہیں کریں گے
یعنی اسلامی مُعاشرے میں لیڈر کی اندھی تقلید کا کوئی تصوُر نہیں۔
البتّہ امام کے قرأت بھُولنے پر کسی بھی مُقتدی کے لُقمہ دے کر تصیح کرنے کا فریضہ اسلام کے فلسفۂ امامت کو لیڈرشپ کے عمومی تصوُر سے مُمتاز کرتا ہے۔
کیونکہ ہمارے ہاں ایک عام آدمی امام یعنی لیڈر کو اکاؤنٹیبل کرکے اُسکی تصیح کر سکتا ہے۔
اورچُونکہ کوئی بھی امامت کروا سکتا ہے لہٰذا اسلام میں لیڈرشپ کا دروازہ ہر خاص و عام کے لیے کھُلا ہے۔
یہ تصوُر کہ امام کو اللہ چُنتا ہے ختمِ نبُوّت کی عملاََ ضِد ہے۔ اور یہ تصوُر کہ امام نبیﷺ کی نسل یا قوم سے ہی ہونا ضرُوری ہے مجمُوعی اسلامی فلسفے سے مُتضاد اور بُت پرستانہ رویّہ ہے۔
یعنی ہر مُسلمان کسی نہ کسی درجے کا امام ہونا چاہیے چاہے اُسکی طاقت دو لوگوں کی سلامتی کا سبب ہی کیوں نہ ہو.
تبھی اسلام دو یا دو سے زیادہ لوگوں کو جماعت کا اہتمام کرنے کا حُکم دیتا ہے۔ اسلام امامت کے بغیر پھیکا رہے گا
جس کسی کا بھی امام ہونے کا دعوٰی ہو اور وہ اپنے مُقتدیوں کو ساتھ لے کراپنے مُعاشرے میں رُوحانی، سیاسی، معاشی اور سماجی سلامتی کا نظام لانے کی جدّوجُہد نہ کرے اُسنے نہ نماز پڑھی نہ پڑھائی۔
اُسکے مُقتدیوں کوچاہیے امام بدل لیں اور اُس امام کو چاہیے پیشہ بدل لے یا دین بدل لے.
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}