Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
274

برطانوی جمہوریت بمقابلہ پاکستانی جمہوریت

جس دن ڈیلی مرر میں یہ کارٹون شائع ہوا اسی روز مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب ٹونی بلیئر حکومت کی بساط لپٹنے والی ہے۔ کارٹون میں دکھایا گیا تھا کہ امریکی صدر جارج بش نے ایک کتے کی رسی تھامی ہوئی ہے اور وہ عراق پر حملے کے لئے پیش قدمی کر رہا ہے اور اس کتے کی شکل ٹونی بلیئر کے چہرے سے مشابہ تھی۔ حالانکہ ٹونی بلیئر اس وقت برطانیہ کے مقبول ترین وزیر اعظم اور لیبر پارٹی کے کرشماتی رہنما تھے۔ ٹونی بلیئر کی مقبولیت اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے لیبر پارٹی کو 18برس بعد اقتدار میں آنے کا موقع ملا تھا۔ مارگریٹ تھیچر اور جان میجر کی حکومتوں کے دوران عام لوگوں اور ملازمت پیشہ طبقے کی ذہن میں یہ خیال پختہ ہو چکا تھا کہ کنزرویٹیو پارٹی سرمایہ داروں کی سرپرست ہے اور اس کی حکومتی پالیسیاں محنت کش طبقے کے حق میں نہیں ہیں۔ لیبر پارٹی نے اپنے حزب اختلاف کے دور میں عام لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے شاندار پالیسیز وضع کیں۔ 1994ء میں لیبر لیڈر جان سمتھ کی اچانک وفات کے بعد پارٹی کی قیادت کے لئے ٹونی بلیئر کو منتخب کیا گیا جو اس سے پہلے شیڈو ہوم سیکرٹری کے طور پر کام کر رہے تھے اور اپنی مقبولیت کی راہیں ہموار کر چکے تھے۔ 1997ء کے عام انتخابات میں لیبر پارٹی نے شاندار اور فقید المثال کامیابی حاصل کی۔ اقتدار سنبھالتے ہی ٹونی بلیئر نے اپنے بہت سے انتخابی وعدے پورے کئے اور اپنی عوام دوست پالیسیز کو عملی جامہ پہنایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عام لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوا اور لیبر پارٹی کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہو تا گیا اور لوگ ٹونی بلیئر کی قائدانہ صلاحیتوں کے معترف ہو گئے جس کے بعد 2001ء اور 2005ء کے عام انتخابات میں بھی لیبر پارٹی شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوئی لیکن وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ایک غلط فیصلے نے ان کی مقبولیت اور حکومت کی کارکردگی پر پانی پھیر دیا۔ 2002ء کے آخر میں جب امریکی صدر جارج بش عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے لئے سازشوں میں مصروف تھے اور انسانوں کی تباہی والے ہتھیاروں یعنی (WEAPONS OF MASS DISTRUCTION)کو بہانہ بنا کر ایک خوشحال ملک کو ملبے کے ڈھیر میں بدلنے کے لئے پر تول رہے تھے تو اس وقت ٹونی بلیئر نے برطانوی وزیر اعظم کی حیثیت میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہی وہ غلطی تھی جس کا خمیازہ لیبر پارٹی اور ٹونی بلیئر کو آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔ عراق پر یک طرفہ جنگ مسلط کرنے کے اس فیصلے کے خلاف ستمبر 2002ء میں لندن میں ایک تاریخی احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا جس میں لاکھوں امن پسند شہریوں نے شرکت کی(جن میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی)۔ ٹونی بلیئر نے جارج بش کی اندھی تقلید کی۔ برطانوی ذرائع ابلاغ نے بھی عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خوفناک حملوں کے خلاف بہت شور مچایالیکن طاقت کے نشے میں چور امریکہ اور اس کے حواریوں نے اپنے کان بند کر لئے اور خاص طور پر برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے نوشتہ دیوار نہ پڑھا۔ اپنا اور اپنی پارٹی کا مستقبل داؤ پر لگا دیا۔ 19مارچ 2003ء میں عراق پر اسلحے اور بارود کی بارش کے بعد اور صدام حسین کی پھانسی تک جب بغداد یا کسی اور شہر سے انسانوں کی تباہی والے کسی قسم کے اسلحے کا سراغ نہ ملا تو ٹونی بلیئر کے خلاف احتجاج کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا جس کے بعد لیبر پارٹی نے کئی سال تک اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے ہر ممکن جتن کئے لیکن بے سود۔ بالآخر 27جون 2007ء کو ٹونی بلیئر کے اقتدار کا سورج ایک غلط فیصلے کی وجہ سے غروب ہو گیا۔عوام کے اعتماد سے محرومی کی جو گرہ ٹونی بلیئر نے اپنے ہاتھوں سے لگائی تھی ان کے بعد لیبر پارٹی کی پوری قیادت مل کر بھی اسے اپنے دانتوں سے نہیں کھول سکی۔ اسے کہتے ہیں کہ جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے اور طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں۔ برطانوی عوام اور ووٹرز کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ سیاستدانوں کے جھوٹے وعدوں کے فریب میں نہیں آتے اور ان کے لفظی دعوؤں کے جال میں نہیں پھنستے۔ان کے نزدیک کسی بھی سیاسی جماعت کی کارکردگی اور کسی بھی سیاستدان کا عمل ہیں وہ پیمانہ اور معیار ہوتا ہے جس کو پیش نظر رکھ کر وہ انہیں ووٹ دینے کا فیصل کرتے ہیں۔اسی لئے برطانیہ کی سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کے دوران کوئی بھی ایسا وعدہ کرنے سے گریز کرتی ہیں جس کو اقتدار میں آنے کے بعد پورا کرنا ان کے لئے ممکن نہ ہو۔ برطانوی عوام کے سیاسی شعور کی بنیادی وجہ تعلیم ہے لیکن جب مجھ جیسے بہت سے تارکین وطن اپنے دیس پاکستان میں بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں کو اندرون سندھ کے مفلوک الحال نیم مردہ عوام کے سامنے زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، یا الیکشن کے دنوں میں اندرون لاہور کے ابلتے ہوئے گٹروں کی غلاظت سے دامن بچاتے مجبور عوام کے سامنے میاں دے نعرے وجن گے یا مہنگائی کے مارے فاقہ زدہ لوگوں کے سامنے جب آئے گا عمران بنے گا نیا پاکستان کے نعرے لگاتے دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ کیسے پڑھے لکھے اور باشعورلوگ ہیں جو بڑے فخر سے سیاسی غلامی اور شخصیت پرستی کا تاج اپنے سر پر سجائے پھرتے ہیں۔ اگر جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے تو یہ انتقام حکمرانوں اور سیاستدانوں کی بجائے عوام سے کیوں لیا جا رہا ہے۔ اگر طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں تو عوام کو اپنی اس طاقت کا ادراک کیوں نہیں ہے؟

برطانیہ میں سیاست کو کھیل نہیں سمجھا جاتا لیکن یہاں کے اکثر سیاستدان سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جب تک وہ ذہنی اور جسمانی طور پر خود کو سیاست کے لئے فٹ (FIT)سمجھتے ہیں اپنی بھرپور توانائی اور اہلیت کو بروئے کار لاکر سیاست کرتے ہیں اور جب وہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ سیاست اور عوامی خدمت کا فریضہ ادا کرنے کے لئے فعال نہیں رہ سکتے تو عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں اور کسی اور کو اپنی جگہ آنے کا موقع فراہم کر دیتے ہیں۔ وہ انتظار نہیں کرتے کہ ان کی اولاد جوان ہو کر ان کی جگہ لے گی یا وہ اس طرح کی منصوبہ بندی نہیں کرتے کہ صرف اپنے خاندان کے لوگوں کو اپنی سیاسی وراثت کا حقدار بنائیں جبکہ پاکستان میں ہر بڑی مذہبی اور سیاسی جماعت کی قیادت وراثت کے طور پر منتقل ہوتی ہے اور اگر سیاسی وارث کم عمر ہوں تو ان کے بالغ اور جوان ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے اور ان کے سروں پر ان خاندانی نسبتوں کی دستار بھی سجا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے دوسروں پر ان کا احترام لازم ہو جائے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام اتنے سادہ اور بھولے ہیں کہ پہلے اپنے سروں پر ایسے لوگوں کو مسلط کرتے ہیں جو ملک و قوم کی تمام خرابیوں کے ذمہ دار اور آمریتوں کی پیداوار ہیں۔ پھر شکایت کرتے ہیں کہ حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ ہمارے ملک کے عوام کو اس اٹل حقیقت کا ادراک کر لینا چاہئے کہ تبدیلی سیاستدان یا حکمران نہیں بلکہ عوام لے کر آتے ہیں۔ جس دن ہمارے عوام نے تبدیل ہونا شروع کر دیا اسی دن ملک میں تبدیلی اور امید کا سورج طلوع ہونا شروع ہو جائے گا۔ آج کی دنیا میں صرف انہی ملکوں کو دیانتدار قیادتیں اور حکمران میسر ہیں جہاں کے عوام بددیانت نہیں ہیں۔ صرف وہی ملک صاف ستھرے اور ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہیں جہاں کے عوام واقعی صفائی کو نصف ایمان سمجھ کر اس کا عملی طور پر خیال رکھتے ہیں۔ صرف وہی ملک معاشی طور پر مستحکم ہیں جہاں کے تاجر دیانتداری سے کاروبار کرتے اور اپنے حصے کا پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ صرف انہی ملکوں میں انصاف کی بالادستی ہے جہاں کسی کو کوئی جھوٹا گواہ میسر نہیں آتا اور جہاں کوئی کسی کو جھوٹے مقدمات میں نہیں پھنساتا۔ ہم خود کوئی اچھا اور مثالی کام کرنے اور اپنے سماجی فرائض ادا کرنے کی بجائے ہر اچھے کام کی توقع اپنے حکمرانوں سے کرتے ہیں۔ ملک اور قوم کی تعمیر وترقی میں افراد کی حیثیت اینٹ اور بنیاد کی ہوتی ہے۔ اگر افراد کی اکثریت اچھی ہو گی تو ملک و قوم کی عمارت پائیدار بنیادوں پر استوار ہو گی۔ اگر ہم نے ترقی یافتہ ملکوں کی خوشحالی کاراز جاننا ہو تو ہمیں وہاں کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی بجائے وہاں کے عوام کے معاشرتی رویوں اور طرز عمل کا جائزہ لینا چاہئے جس سے ہمیں یہ حقیقت بہت آسانی سے مجھ آ جائے گی کہ واقعی جب کسی قوم کے افراد اپنے اپنے حصے کا چراغ روشن کرتے ہیں تو ملک کی تقدیر روشن ہوتی ہے اور معاشرے میں اجالا پھیلتا ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کا بڑا المیہ یہ ہے کہ وہاں لوگوں کی اکثریت اپنے حصے کا چراغ جلانے سے زیادہ دوسروں کا چراغ بجھانے کی فکر میں رہتی ہے اور پھر اندھیروں کی شکایت کرتی ہے۔ معلوم نہیں ہمارے ملک کے عوام کب تک خود فریبی میں مبتلا رہیں گے؟ ہر اچھے کام کی توقع حکمرانوں اور سیاستدانوں سے لگانے کی بجائے خود کب کوئی اچھا کام کرنے کے لئے قدم بڑھانے کا آغاز کریں گے؟ حق مانگنے سے پہلے کب اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی ابتدا کریں گے؟ اپنی کوتاہیوں پر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے کب اپنے گریبان میں جھانکنا شروع کریں گے؟ جس دن ہم ایسا کرنے لگیں گے اس دن سے ہمیں دوسروں کی ترقی اور اپنے زوال کے اسباب کا ادراک ہونے لگے گا۔

٭٭٭٭٭٭