شوہرگھر پر نہیں تھا اور یہ اچھا موقع تھا کہ وہ اپنے مسئلے کے حل کے لئے پیر صاحب کو فون کرے مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے لئے اپنی بھانجی کو بہو بنا کر برطانیہ لائی تھی لیکن شادی کے چند مہینے بعد ہی بیٹا گھر چھوڑ کر چلا گیا اور پلٹ کر اپنے والدین اور اپنی منکوحہ کی خبر تک نہ لی۔اطلاع یہ تھی کہ اس نے ایک گوری کو مسلمان کر کے شادی کر لی ہے اور اب وہ اُس کے ساتھ کسی دوسرے شہر میں رہ رہا ہے۔ اکلوتے بیٹے کی ماں چاہتی تھی کہ پیر صاحب اُسے کوئی ایسا وظیفہ بتائیں یا تعویز دیں کہ اس کا بیٹا گوری کا پیچھا چھوڑ کر گھر واپس آ جائے۔ دکھیاری ماں نے جب پیر صاحب کو فون کر کے ساری تفصیل بتائی تو انہوں نے کہا کہ اس کام کے لئے چلّہ کاٹنا پڑے گا جس کے بعد میں ایک تعویز لکھ کر دوں گا تو کچھ ہی دنوں میں تمہارا بیٹا لوٹ آئے گا۔ پیر صاحب کی اس تسلی سے مایوسی میں گھری پریشان ماں کو حوصلہ ہوا تو اس نے پوچھا کہ مجھے اس سلسلے میں کیا کرنا ہو گا تو پیر صاحب نے کہا کہ مجھے چلّہ کاٹنے کے لئے کچھ لوازمات کی ضرورت ہو گی اور وہ یہ تھے، گیارہ بوتل گلاب کا عرق، 101 موم بتیاں، آدھا کلو زعفران، اگر بتیوں کے 51 پیکٹ، 10 گرام سونے اور 10 گرام چاندی کے ورق، ایک پونڈ کستوری اور گیارہ پونڈ گرم مصالہ۔ مجبور ماں نے پریشان ہو کر کہا کہ میں ان تمام لوازمات کا انتظام کیسے کروں گی اور مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب چیزیں کہاں پر دستیاب ہیں برطانیہ میں ان سب اشیا کا حصول تو بہت دشوار ہو گا جس پر پیر صاحب نے کہا کہ اچھا تم فی الحال 480 پونڈ مجھے بھیج دو تو میں ان تمام لوازمات کا انتظام کروا کے چلّہ کاٹنے کی تیاری کرتا ہوں۔ فون بند کر کے یہ خاتون تذبذب کا شکار ہو گئی کہ یہ بات اپنے شوہر کے علم میں لائے یا نہ لائے اگلے روز اس نے ہمت کر کے شوہر کو ساری بات بتائی تو اس نے بیوی کو خوب ڈانٹا اور اس پیر سے دوبارہ رابطے سے سختی سے منع کر دیا۔ اسی طرح ایک اور خاتون جو کہ آرتھرائٹس کے مرض کی وجہ سے شدید تکلیف میں مبتلا رہتی تھیں ڈاکٹر کا علاج بھی جاری تھا مگر افاقہ نہیں ہو رہا تھا کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ ایک عامل بابابہت پہنچے ہوئے ہیں جو کہ برطانیہ کے کسی شہر میں مقیم ہیں اُن سے رابطہ کرو تو وہ کوئی تعویز دیں گے یا وظیفہ بتائیں گے جس سے تمہیں اس مرض سے نجات مل جائے گی جب اس خاتون نے عامل بابا سے رابطہ کیا تو اس نے ساری تفصیل سننے کے بعد خاتون کو اگلے دن پھر سے فون کرنے کرنے کو کہا تاکہ وہ اس بیماری کے بارے میں حساب لگا کر وظیفہ تجویز کر سکے۔ خاتون نے اگلے روز فون کیا تو اس عامل نے یہ بتا کر خاتون کو حیرانی اور پریشانی میں مبتلا کر دیا کہ تم پر تمہارے سسرالی رشتے داروں نے جادو کروا رکھا ہے جس کا توڑ کرنے کے لئے مجھے لمبے وظیفے کرنے ہوں گے اور اس کام کے لئے اس عامل بابا نے خاتون سے 8 سو پونڈ کا مطالبہ کیا۔
یہ جعلی پیر اور عامل پہلے برطانیہ کے اخبارات اور رسائل میں اپنے کارناموں کے اشتہارات چھپواتے تھے اور آج کل برطانیہ اور یورپ میں دیکھے جانے والے بہت سے ٹی وی چینلز پر ان کے اشتہار نشر ہوتے ہیں جن میں وہ استخارہ اور ہر طرح کے مسائل کا حل کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔ کئی پیر اور عامل جو ٹی وی چینلز کو ان اشتہارات کے لئے ہزاروں پونڈ دیتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام فی سبیل اللہ کرتے ہیں حالانکہ اگر کوئی مجبور ان کے جال میں پھنس جائے تو وہ اس سے لمبا مال بٹورتے ہیں اور ذاتی معلومات حاصل کرنے کے بعد بلیک میلنگ تک کرنے پر تل جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ ان پیروں اور عاملوں کے جال میں پھنسنے کے بعد پولیس کی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہوئے تو کئی جعلی نوسربازوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی ان میں سے بعض چالبازایسے ہیں جو کئی کئی ناموں سے یہ دھندہ کرتے ہیں۔ ہندوں کے لئے جوتشی اور سائیں بابا بن کر اور مسلمانو ں کو چکمہ دینے کے لئے یہ کوئی اسلامی نام رکھ کر اپنا کاروبار چلاتے ہیں جو لوگ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اپنے طبی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے ڈاکٹروں اور گھر والوں کی مدد لینے کی بجائے پیروں اور عاملوں سے رابطہ کریں وہ یقینا نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہوتے ہیں اور نام نہاد پیروں کے چکر میں وہ مستقل نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ نفسیاتی مسئلے کا ایک پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنے مسائل کا حل کسی دوسرے سے کروانا چاہتا ہے اور اسی وہم کی وجہ سے جعلی پیروں اور عاملوں کا کاروبار خوب چلتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہر طرح کے علاج معالجے کے لئے دنیا بھر سے لوگ برطانیہ آتے ہیں اور برطانیہ میں رہنے والی مسلمان اور ہندو کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد اپنے نفسیاتی اور جسمانی علاج کے لئے ڈاکٹرز اور سرجنز سے رابطے کی بجائے جعلی پیروں اور عاملوں سے رجوع کرتی ہے۔
اس دنیامیں رہنے والا شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو گا جس کو کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہویہ دنیا انسانوں اور مسائل سے بھری پڑی ہے کسی کو صحت کا مسئلہ ہے تو کوئی روحانی مسائل میں مبتلا ہے کسی کو مالی پریشانی نے مشکلات میں ڈال رکھا ہے تو کوئی گھریلو حالات سے بیزار ہے کسی کو اولاد کی نافرمانی کے باعث زمانے سے شکایت ہے تو کسی کے لئے بے وفا محبوب امتحان بنا ہوا ہے کوئی ذہنی سکون کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے تو کسی کے لئے آسائشوںکی بہتات درد سر ہے کوئی مذہب سے دوری کے نتیجے میں عذاب سے دوچا رہے تو کسی کی مذہبی انتہا پسندی ایک مسئلہ بن گئی ہے کسی کو نفسیاتی مسائل چین سے جینے نہیں دیتے تو کوئی شہرت اور اختیار کے لئے مارا مارا پھر رہا ہے۔ بہرحال مسئلہ کوئی بھی ہو یا اس کی نوعیت کیسی بھی ہو بہت سے انسان اس وہم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ کوئی ایسا تو ہو گا جو ان کا مسئلہ حل کر سکتا ہے اسی لئے وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے کسی دوسرے سے رجوع کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب ہر انسان کسی نہ کسی مسئلے کا شکار ہے تو کوئی ایسا شخص جو خود کسی مسئلے میں مبتلا ہو وہ دوسرے انسان کے مسئلے یا مسائل کو کیسے حل کر سکتا ہے ۔
جب خالق کائنات نے انسان کو اس دنیا میں بھیجا اور مسائل سے دوچار کیا تو صرف اللہ رب العزت ہی ہمارے مسائل کو حل کرسکتا ہے، وہی ہماری حاجتیں پوری کر سکتا ہے ، وہی خالق و مالک اور ہمارا مددگار ہے اس کے علاوہ کسی اور کو اپنا حاجت روا سمجھنا سراسر شرک ہے اور جو لوگ اپنی طرح انسانوں کے ایسے مسائل حل کرنے کے دعوے کرتے ہیں جو صرف خالق کائنات ہی حل کر سکتا ہے وہ سراسر شرک کے مرتکب ہوتے ہیں ایسے لوگ دغاباز، فریبی، جھوٹے اور نفسیاتی مسائل میں پھنسے ہوئے مجبور انسانوں کو دھوکہ دینے والے چالباز ہیں۔ یہ جعلی پیر، عامل، مستقبل کا حال بتانے والے، ستاروں کی چال کے ماہر، قسمت کے کارڈ کا چکر چلانے والے، وظیفے اور ورد بتانے والے، جادوکرنے اور اُن کا توڑبتانے، اولاد نہ ہونے اور شادی بیاہ کے مسائل حل کرنے کے دعویدار اگر اتنے سچے ہوتے تو سب سے پہلے وہ اپنے مسائل خود حل کرتے۔ اگر آپ ان جعلی پیروں اور عاملوں کی ذاتی زندگی میں جھانک کر دیکھیں تو یہ بے چارے خود طرح طرح کے نفسیاتی، مالی اور جسمانی صحت کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں بلکہ جو پیر برطانیہ میں یہ دھندہ کرتے ہیں وہ خود امیگریشن کے مسئلے میں پھنسے ہوتے ہیں لیکن دوسرے لوگوں کو امیگریشن کے مسائل کے حل کے وظیفے بتاتے ہیں ۔ایسے لوگ مذہب کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں اور قرآنی آیات اور استخارے کو سہارا بنا کر اپنا کام چلاتے ہیں اس کاروبار میں چونکہ کسی لمبی چوڑی انوسٹمنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے یہ لوگ مذہب کی آڑ لے کر اپنا کام شروع کرتے اور پھر خدائی دعوے کرنے لگتے ہیں یعنی جو کام صرف اللہ تعالی کے بس میں ہے وہ یہ خود کرنے کے دعویدار بن جاتے ہیں ۔
قرآن پاک، اس کی آیات اور سورتیں یقینا باعث برکت و رحمت ہیں لیکن اس کے لئے کسی پیر اور عامل (جس نے صرف مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے) کی مدد کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے بھی آزمائشیں اور مسائل اللہ کی طرف سے ایک امتحان ہوتی ہیں اور خالق کائنات ہی انسانوں کو اس سے نجات دلا سکتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان خود اللہ سے لو لگائے براہِ راست اس سے مدد مانگے اس کے لئے کسی واسطے اور وسیلے کی ضرورت نہیں اللہ اور بندے کے درمیان کوئی ٹھیکیداری نظام نہیں ہے۔ یہ بات بھی مشاہدے میںآئی ہے بہت سے ایسے لوگ جو کسی طرح کی مالی یا اقتصادی پریشانی میں مبتلا تھے انہوں نے اپنے اس مسئلے کے حل کے لئے کسی پیر یا عامل سے رابطہ کیا جس نے وظیفے اور چلّہ کاٹنے کے بہانے اس مجبور انسان سے مزید ہزار دو ہزار پوند ہتھیا لئے مگر اس کے باوجود سائل کی مالی مشکلات دور نہ ہوئیں بلکہ وہ مزید اقتصادی مسائل کا شکار ہو گیا۔
اسی طرح کئی لوگوں نے بیٹیوں یا بیٹوں کی شادی اور اچھے رشتوں کے لئے کسی پیر سے وظیفے کے لئے رجوع کیا تو اس نے مال بٹورنے کے علاوہ والدین کو اس وہم میں مبتلا کر دیا کہ اُن پر کسی بندش کا اثر ہے جس کی وجہ سے شادی اور رشتے میں رکاوٹیں پیش آر ہی ہیں ان معاملات میں خواتین جلد توہم پرستی کا شکار ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ عام طور پر ضعیف الاعتقاد ہوتی ہیں۔ وہ تمام مرد اور خواتین جن کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی پیر و مرشدان کے مسائل حل کر سکتا ہے یا کسی عامل کے تعویز یا وظیفے سے انہیں بچے یا اولادِ نرینہ مل سکتی ہے وہ غلطی پر ہیں بلکہ شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اللہ سے لو لگائیں وہی سب آزمائشیں ٹالنے اور مصیبت سے نکالنے والا ہے اور اگر کسی کو وہم ہو کہ اس پر کسی نے جادو یا تعویز کروا دیا ہے تو کسی پیر فقیر یا عامل مرشد سے دم کروانے کی بجائے اُسے چاہیے کہ وہ خود سورۂ الفلق اور سورۂ الناس ترجمے کے ساتھ پڑھ کر خالق کائنات سے مدد طلب کرے کیونکہ صرف اور صرف اللہ تعالی ہی ہم سب کی حاجتیں اور ضرورتیں پوری کرنے پر قادر ہے۔جہاں تک اس مطالبے کا تعلق ہے کہ حکومت پاکستان کو ان جعلی پیروں اور عاملوں کے خلاف کوئی موثر قانون سازی کر کے سخت کارروائی کرنی چاہیئے تو اس سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ بڑے بڑے پیر گدی نشین اور سجادہ نشین تو خود صوبائی قومی اسمبلی کا حصہ ہیں وہ کب چاہیں گے کہ پیر پرستی کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی ہو یا ایسے لوگوں کی سرکوبی کا کوئی سلسلہ شروع کیا جائے۔ پیروں اور عاملوں کے چنگل سے لوگوں کو نجات دلانے کا واحد اور موثر طریقہ صرف یہی ہے کہ معاشرے سے جہالت کے اندھیرے کے خاتمے کی کوئی سبیل کی جائے کیونکہ علم کی روشنی سے ہی توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور پیر پرستوں کو شرک میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔٭٭٭٭٭