Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
271

کرپشن اور بدکرداری کا وائرس۔

ذلت اور زوال کی ہر نئی مثال پرہر بار یہی سوچتا ہوں کہ انتہا ہو گئی ، حد ہوگئی۔ اب اس سے آگے کچھ نہیں ہوسکتا لیکن پھر کوئی نہ کوئی ٹی وی پروگرام یا اخباری خبر اس طرح ہلا کر رکھ دیتی ہے کہ پچھلی واردات ’’معصومانہ‘‘ سی لگنے لگتی ہے مثلاً جب کسی ٹی وی چینل پر کیمیکل ملے پانی میں ادرک ڈبو کر اس کا وزن اور چمک بڑھانے والی ’’فیکٹری‘‘ دیکھی تو اس کے پاکیزہ حلیہ والے پروپرائٹر کو دیکھ کر ہوش اڑ گئے۔ سوچا بس اس سے آگے کچھ نہیں لیکن چند ہفتے بعد بغیر ٹماٹروں کے ٹمیٹو کیچ اپ بنانے والا پلانٹ دیکھا تو حواس گم ہوگئے۔ 

ذلت اور زوال کی حد آگے کھسک گئی، دائرہ وسیع تر ہوگیا۔ ابھی اسی کے ’’سحر‘‘میں گرفتار تھاکہ غلیظ ترین چیزوں سے ’’دودھ‘‘ کی تیاری کا ’’پراجیکٹ‘‘ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ ابھی اس کی حیرت باقی تھی کہ اک اور پروگرام میں اک ’’حاجی صاحب‘‘ کو مردہ جانوروں کی انتڑیوں آلائشوں سے کوکنگ آئل تیار کرنے کی ٹیکنالوجی پر کام کرتے دیکھ کر میرا مغز سے خالی سر فخر سے بلند ہو گیا اور سینہ تن گیا کہ واقعی….. ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘ بلکہ ایسی تیسی نم، کھاد، کیڑے مار دوائوں اور گوڈی وغیرہ کی۔ سچ پوچھیں تو شیطانیت کی اس شجرکاری کے لئے نہ بیج درکار ہے نہ پنیری ’’ٹیلنٹ‘‘ ہی کافی ہے۔
مختصراً یہ کہ مسلسل ایسی روح پرور خبروں کے باوجود میںاتنا ڈھیٹ ہوں کہ ابھی تک نہ ان کا عادی ہوا اور نہ یہ سوچنے سے باز آیا کہ بس بھئی اس سے آگے کچھ نہیں ہوگا لیکن آج مورخہ 19اکتوبر بروز جمعرات 2017 کے اخبارات نے تو میرے سارے کس بل اور کڑاکے نکال دیئے ہیں۔ کوئی محسوس کرنےوالاہو اور اس کی کھال فائبر گلاس کی نہ ہو تو محکمہ لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ (پنجاب)کا یہ اشتہار ہماری چند گزشتہ اور آئندہ نسلوں کے منہ پر کسی زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں کہ ہم تو جانوروں کے ساتھ زیادتی بلکہ ظلم کے سائونڈ بیریئرز بھی توڑ چکے۔ اس اشتہار کے بعد تو مجھے گدھوں کا ’’مٹن‘‘ یا ’’بیف‘‘ بنانے والے بھی معصوم دکھائی دینے لگے ہیں۔

اشتہار کو مضمون سے ماپنے کی کوشش کریں تو انسان کس حد تک گر سکتا ہے اور ہمارے ہاں گر چکا ہے۔’’جعلی کھل بنولہ مافیا‘‘’’بے زبان جانوروں کےدشمنوں کی فوری گرفتاری‘‘’’کھل بنولہ میں گلی سڑی کاٹن، لکڑی کا برادہ، چونا، پھک اور زہریلارنگ ملانے والا جانوروں اور انسانوں کی صحت کا دشمن ہے‘‘’’جعلی کھل بنولہ کی تیاری، اسٹاک، ترسیل اور فروخت میں ملوث افراد کی 9211-08000 پر نشاندہی کرکے نقد انعام پائیں‘‘

قارئین!شاید یہ بھی یہود و ہنود کی سازش ہو اور نہ بھی ہو تب بھی ہمیں ایسی ’’معمولی‘‘ سازشوں پر تھوڑی سی توجہ ضرور دینی چاہئے کیونکہ یہ اندر کے گلائو سڑائو اور مکمل ترین تباہی کی ننگی نشانیاں ہیں جنہیں دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بندکرلینے کا انجام بہت بھیانک ہوگا کہ یہ سب کچھ نہ صرف قدم قدم اور جگہ جگہ ہو رہا ہے بلکہ اس میں وسعت پیدا ہو رہی ہے، یہ کام بڑھتا جارہا ہے۔دہشت گردی کاخاتمہ ضروری معیشت بارے کنسرن لازم بھارتی عزائم پر کڑی نظر ہمارے نظریہ کی اساس کشمیر ہماری شہ رگ امریکن تیوروں کے تجزیے سرفہرست افغانستان، ایران تا سعودی عرب بجانگران، عبوری، کیئر ٹیکر، ٹیکنوکریٹ یا شیش ناگوں کو کیچوے بنا کر بھی گلشن کا کاروبار چلایا جاسکتا ہے اور موت دکھا کر 104 بخار پر آمادہ کیا جاسکتا ہے؟
یہ اور ایسے دیگر بے شمار مسائل اپنی جگہ بے شک بے حد اہمیت کے حامل ہیں لیکن کچھ دھیان تو ادھربھی کہ حضور! بین الاقوامیات اور اقتصادیات سے بھی سنگین تر مسئلہ ہماری تباہ ہوتی اجتماعی اخلاقیات کا ہے جس کی طرف سیاسی، مذہبی، فکری، سماجی اورعسکری غرضیکہ کسی بھی قسم کی لیڈرشپ متوجہ نہیں یا کم از کم اتنی متوجہ نہیں جتنا ہونا ضروری ہے۔کوئی ہے جو سوچے یہ ہو کیارہا ہے؟نیشن بلڈنگ، کیریکٹر بلڈنگ، انسان سازی کیا صرف ڈھکوسلے، چونچلے، پھسپھسے لطیفے اور بے معنی جملے ہیں یا اس بارے بھی کسی نے سوچنا اور کچھ کرنا ہے اور اگرسوچنا، کرنا ہے تو یہ ’’جمہوری‘‘چنڈال کریں گے؟ یہ چمچے کڑچھے، چاقو، چھریاں، کانٹے کریں گے جن کے بارے میں اللہ لوک، مرنجاں مرنج صدرممنون حسین نے بنوں یونیورسٹی میں خطاب کے دوران کہا بلکہ فرمایا۔’’4سال میں ڈیم بنے نہ ہسپتال۔ 
عوام ان سے پوچھیں 14800 ارب کا قرضہ کہاں گیا؟‘‘’’کرپشن نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا جو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس ناسور کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔‘‘’’جھوٹ، فریب ، مکر اور مداری سیاست نے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا‘‘میرا ایمان ہے کہ اخلاقیات کی اجتماعی تباہی اور بدکرداری والے وائرس کے پھیلائو کے ڈانڈے اشرافیہ کی کرپشن سے ملتے ہیں کیونکہ مچھلی اوپر سے سڑتی ہے اور ہمارے اسلاف نے صدیوں پہلے سمجھادیا تھاکہ عوام اپنے حکام کا عکس ہوتے ہیں۔ افقی عمودی احتساب کے بغیر غرقابی کا پروسیس تیزتر ہوتا چلا جائے گا لیکن کہیں کہیں امید کی کوئی نہ کوئی کرن ضرور دکھائی دیتی ہے۔ ’’پاناما‘‘ آغاز ہے انجام نہیں، ابتدا ہے انتہا نہیں کیونکہ اک تازہ ترین خبر کے مطابق اہم شخصیات کی بے نامی جائیدادوں کا سراغ لگانے کا کام شروع ہوچکا ہے۔اوپری سطح پر کرپشن نچلی سطح پر بدکرداری کیسے پھیلاتی ہے؟ اس پر پھر کبھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں