ہمارے پاکستانی معاشرے میں لڑکی کو اس طرح آگے بڑھنے کے اتنے مواقع نہیں ملتے جتنے لڑکوں کو ملتے ہیں، انہیں اپنی پسند کے انسان سے شادی کا اس طرح حق بھی نہیں ملتا جیسے مرد کو ملتا ہے۔ مڈل کلاس گھرانوں میں لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اس کی شادی کی فکر ہوجاتی ہے اور والدین کے سر پر ایک خوف سوار ہوتا ہے کہ کسی طرح اس کو اگلے گھر عزت کے ساتھ بھیج دیں اور اسی لیے اس کو اتنا زیادہ پڑھایا بھی نہیں جاتا کہ جب کرنی ہی ہانڈی روٹی ہے تو زیادہ پڑھائی کس کام کی۔۔۔۔
اسی چیز کا فائدہ شوہر یا سسرال والے اٹھاتے ہیں اور شادی کے بعد لڑکی کا بہت زیادہ استحصال کیا جاتا ہے، اسے دبایا جاتا ہے، وہ کمانا چاہے بھی تو اس خوف سے روک دیا جاتا ہے کہ اس کے پاس بھی پیسہ آگیا تو زبان چلائے گی اور مرد کی حاکمیت کو چیلنج کردے گی (جو کہ صرف مفروضہ ہے، عورت کو آپ اعتبار دیں اور پھر کرشمے دیکھیں) مرد حضرات باہر ماڈرن لڑکی کے پیچھے رال ٹپکاتے پھرتے ہیں لیکن اپنی بیوی کو ویسی ڈریسنگ کی اجازت بھی نہیں دیتے ۔ ان کو argument کرنے والی لڑکی پسند ہوتی بشرطیکہ وہ ان کی بیوی نہ ہو ۔ مرد افئیر چلائے تو خیر ہے لڑکی کسی کو پسند کرے تو بدکردار اور بدچلن ہے ۔ اور سب سے مضحکہ خیز بات یہ کہ اس سب کے باوجود لڑکی اگر سیدھے منہ بات کرلے تو خیالوں ہی خیالوں میں اس کے بچوں کے ابا بن جاتے ہیں۔ لڑکی بائک پر بیٹھی غلطی سے پیچھے دیکھ لے تو سمجھتے کہ پَٹ گئی لیکن اب ایشو یہ کہ جو NGOs یا خواتین ان کی نمائندگی کررہیں ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہ رہیں ہیں وہ زیادہ تر برگر فیملیز کی ہیں اور انہوں نے اس طرح کے مسائل کم کم ہی Face کیے ہیں، لہذا وہ عجیب و غریب اور غیر متعلقہ باتیں کرکے کیس ہی خراب کردیتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ عجیب و غریب قسم کے پلے کارڈ اٹھا کر تماشہ لگانے کی بجائے عورت کے حقیقی مسائل کے حل کی بات کی جائے معاشرے میں مردوں کی ذہن سازی کی جائے اور صرف مرد کی ہی نہیں بلکہ اس طرح کے خیالات کی حامل عورتوں کی بھی تربیت کی جائے، تو اس سے معاشرے میں یقینا ایک مثبت تبدیلی آئے گی۔