عمران خان کا سیکورٹی خدشات کی وجہ سے پہلے سری لنکن پارلیمان سے خطاب نہ کرنا اور پھر سری لنکن مسلمان ممبر پارلیمان سے طے شدہ ملاقات نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عمران خان اپنی مرضی سے ڈر کر ایسا کررہا ہے بلکہ اصل وجہ دونوں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سیکورٹی پروٹوکول کے متعلق سفارشات ہیں جنہیں وزیراعظم کو ہر حال میں فالو کرنا ہوتا ہے، ان سفارشات میں سچائی کتنی ہے اور غیرملکی دباؤ کتنا ہے، یہ علیحدہ بات ہے۔
پاکستان کے سری لنکا سے فوجی تعلقات کافی عرصے سے مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں اور اب سیاسی تعلقات میں زیادہ گرم جوشی کی دو وجوہات ہیں ایک چینی دباؤ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ سری لنکا کو اس وقت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں او آئی سی ممبران کی حمایت حاصل کرنا بہت ضروری ہے اور وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دورے سے پہلے ہی سری لنکن وزیر اعظم نے ٹوئٹر پر ایک ٹویٹ کے ذریعے کووڈ 19 کی وجہ سے مرنے والے مسلمانوں کی لاشوں کو جلانے کی بجائے دفنانے کی اجازت دے دی تھی جسے عمران خان نے پسند بھی کیا تھا لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئیے کہ چین کی سری لنکا میں بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے چینی پریشر پر بھی سری لنکا پاکستان سے اچھے تعلقات بنا رہا ہے لیکن انڈیا کا سری لنکن حکومت پر علاقائی پریشر اب بھی موجود ہے اور اسی پریشر کی وجہ سے ہی عمران خان کو پارلیمان سے خطاب اور مسلمان ممبران سے ملاقات کرنے سے روکا گیا ہے، جسکا سری لنکن مسلمان ممبران کو بہت دکھ پہنچا ہے کیونکہ انہیں عمران خان کے دورے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں۔