برطانیہ میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مساجد ہیں جبکہ مختلف عمارتوں میں دو سو سے زیادہ جگہیں ایسی ہیں جن کو نماز کی ادائیگی کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں مساجد کی تعمیر اور قیام پر کوئی پابندی نہیں اسی لئے یہاں مساجد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ برطانیہ میں سب سے زیادہ مساجد گریٹر لندن میں ہیں اور اس ملک کی سب سے قدیم مسجد لندن کے ایک مضافاتی شہر ووکنگ میں ہے جو 1889ء میں تعمیر ہوئی اور اسے شاہ جہاں مسجد کا نام دیا گیا۔ برطانیہ ایک کثیر الثقافت اور کثیر المذاہب ملک ہے ساڑھے چھ کروڑ سے زیادہ آبادی پر مشتمل اس ملک میں مسلمان آبادی کا تناسب 5فیصد سے کچھ زیادہ ہے یعنی 34لاکھ کے لگ بھگ مسلمان آباد ہیں۔ برطانیہ کی 60فیصد آبادی عیسائی مذہب کی پیروکار ہے اور یہاں تقریباً 16ہزار گرجا گھر یعنی چرچز قائم ہیں جبکہ گذشتہ چند برسوں میں درجنوں گرجا گھر بند ہو چکے ہیں۔ اس ملک میں مندر، گوردواروں، سیناگاک اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ برطانیہ میں ہر ایک کو مکمل مذہبی آزادی میسر ہے یہاں ایسے ہزاروں مسلمانوں کو بھی تحفظ حاصل ہے جو مسلم ممالک سے اس لئے ہجرت کر کے برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ انہیں اپنے ملکوں میں مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی یا کسی خاص مسلک اور فرقے سے تعلق کی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ لاحق تھا۔
لندن میں 7جولائی 2005ء کو خودکش حملوں میں 52افراد ہلاک ہوئے ان حملوں میں انڈر گرائونڈ ٹرین کے اسٹیشن اور ایک بس کو نشانہ بنایا گیا حملہ آور 3مسلمان نوجوان تھے جو خود بھی اس سانحے میں مارے گئے۔ برطانوی دارالحکومت میں اس اندوہ ناک واقعے کے بعد برطانوی ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آ گئے مسلمان انتہا پسندوں کے نیٹ ورک کی سرکوبی کی گئی ،انتہا پسندی پر اکسانے والے نام نہاد مذہبی رہنمائوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے، مساجد اور اسلامی تنظیموں کی مانیٹرنگ شروع کی گئی، برطانیہ کی مساجد میں امامت کے لئے آنے والے غیر ملکی علماء پر نظر رکھی جانے لگی، ان کے خطبات اور نظریات کی جانچ پڑتال ہونے لگی کہ کہیں وہ دہشت گردی کو تو فروغ نہیں دے رہے، اس بات کا جائزہ لیا جانے لگا کہ انتہا پسندوں تک دھماکہ خیز مواد کہاں سے آتا ہے۔ 7جولائی 2005ء کے سانحے (جسے سیون سیون کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے) کے بعدپورے ملک میں اور خاص طور پر برطانوی دارالحکومت میں سیکورٹی کیمروں کا جال بچھادیا گیا اور دیگر حفاظتی اقدامات اٹھانے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی اور اس مقصد کے لئے تمام تر وسائل اور ذرائع کو بروئے کار لایا گیا۔ اُس وقت ٹونی بلیئر ملک کے وزیر اعظم تھے جنہوں نے دہشت گردی کے اس سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے محض تعزیت پر اکتفا نہ کیا بلکہ انتہا پسندی کو برطانیہ میں پھیلنے سے روکنے کے لئے موثر حکمت عملی سے کام لیا۔(یہ ایک الگ موضوع ہے کہ عراق پر حملے میں امریکہ کا ساتھ دینے پر برطانیہ اور لیبر پارٹی کو اپنے عوام کا شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور جس کے بعد سے آج تک لیبر پارٹی اقتدار میں نہ آ سکی)۔برطانیہ میں دہشت گردی کا آغاز مسلمانوں نے نہیں کیا بلکہ اس کے ڈانڈے آئرش ری پبلک آرمی یعنی آئی آر اے سے جا کر ملتے ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں 1971ء سے 2001ء تک آئی آر اے نے تقریباً 430بار دہشت گردی کی کاروائیاں اور حملے کئے جس میں درجنوں لوگ اپنی جان سے گئے لیکن بالآخر برطانیہ نے شمالی آئرلینڈ کی قیادت سے مذاکرات کے ذریعے مفاہمتی معاہدے کئے اور یوں برطانیہ کو دہشت گردانہ کاروائیوں سے نجات ملی۔ 7جولائی 2005ء کے خود کش حملوں کے بعد 2017ء کے آغاز تک مسلمان انتہاپسندوں کی طرف سے کوئی بڑی کاروائی نہیں ہوئی، 14مئی 2010ء کو ایک نوجوان بنگالی مسلمان لڑکی نے ایسٹ لندن سے برطانوی پارلیمنٹ کے رکن سٹیفن ٹمز کو چاقو کے وار سے زخمی کر دیا اور 22مئی 2013ء میں ایک نومسلم سیاہ فام نے وولچ سائوتھ ایسٹ لندن میں ایک انگریز فوجی کو تیز دھار آلے کے وار سے قتل کر دیا، 22مارچ 2017ء میں ایک مسلمان انتہا پسند خالد مسعود نے وسطی لندن کے ویسٹ منسٹر برج کے فٹ پاتھ پر اپنی گاڑی سے 9افراد کو کچل کر ہلاک کر دیا جس کے بعد 3جون 2017ء میں ایک اور مسلمان انتہا پسند نے لندن برج پر اپنی وین سے 8افراد کو کچل کر قتل کر دیا جبکہ 48افراد شدید زخمی ہوئے جس کے ردعمل میں 19جون 2017ء کو ایک 47سالہ انگریز نے فنز بری پارک کی مسجد سے نکلنے والے ایک شخص پر اپنی وین چڑھا کر اسے ہلاک کر دیا۔ اس حادثے سے پہلے 22مئی 2017ء کو مانچسٹر ارینا میں ایک تقریب کے دوران ایک مسلمان انتہا پسند سلمان عابدی نے خودکش حملہ کیا جس کے نتیجے میں 22افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 139زخمی ہوئے۔
ان سانحات کے بعد برطانیہ کی خفیہ ایجنسیاں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مزید چوکس ہو گئے اور اس ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے سدباب اور خاتمے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کر لیا۔یونائیٹڈ کنگڈم میں خلافت کے نفاذ کا درس دینے والوں کو پابند سلاسل یا ملک بدر کر دیا گیا، برطانیہ میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو روکنے کے لئے اگر ایم آئی 5 اور ایم آئی 6حرکت میں نہ آتیں اور حکومت انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف قانون سازی نہ کرتی تو آج ملک خودکش حملوں اور دھماکوں کی لپیٹ میں ہوتا اس ملک میں مڈل ایسٹ کے مسلمان پناہ گزینوں کے علاوہ افریقہ، ایشیا (بشمول افغانستان، پاکستان، انڈیا، ایران اور بنگلہ دیش) اور دیگر کئی ممالک کے مسلمان بھی آباد ہیں اور ہر ایک کو یہاں مکمل مذہبی اور ثقافتی آزادی اور سہولت میسر ہے تاوقتیکہ اُن کی یہ آزادی برطانوی ضابطوں او قوانین کے علاوہ دیگر مذاہب اور ثقافت کے لوگوں کی آزادی سے متصادم نہ ہو۔ اس ملک کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ایک ملٹی کلچرل اور بین المذاہب خطہ ہے جس کی وجہ سے یہاں رہنے والوں میں ٹالرینس لیول یعنی ایک دوسرے کے مذہب اور ثقافت کو قبول اور تسلیم کرنے کا معیار بہت خوشگوار ہے۔ برطانوی ارباب اختیار اور سیاستدانوں کو اپنے ملک کا امن و امان اپنے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ بہت عزیز ہے کیونکہ اس امن وامان سے برطانیہ کی سیاحت، غیر ملکی سرمایہ کاری، معیشت، خارجہ پالیسی، جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور شخصی آزادی کا گہرا تعلق ہے اس لئے یہ ملک کسی بھی سطح پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیبر حکومت کے بعد ٹوری حکومت نے بھی انتہا پسندی کے خاتمے کے ضمن میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا مگر مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر بھی کوئی قدغن نہیں لگائی۔
اسی تناظر میں اگر ہم پاکستان میں انتہاپسندی اور دہشت گردی میں اضافے کا جائزہ لیں تو بہت حیرانی ہوتی ہے کہ اس کے سدباب یا خاتمے کے لئے کسی بھی حکومت نے کوئی ٹھوس اور موثر حکمت عملی اختیار نہیں کی محض انسداد دہشت گردی کی عدالت بنانے پر اکتفا کیا گیا ۔جس ملک میں اسلحے کی خریدوفروخت اور دستیابی عام ہو، دھماکہ خیز مواد کا حصول آسان ہو، خودکش حملوں کی ترغیب اور قتل و غارت گری کا درس دینے والے جاہل مذہبی رہنما پرآسائش زندگی گزار رہے ہوں اور جن کے ایک حکم پر جذباتی نوجوان اپنی جان دینے یا کسی کی جان لینے کے لئے بے تاب ہوں، عدالتیں دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے سزائیں دینے سے قاصر ہوں، حکمران اور سیاستدان بلٹ پروف گاڑیوں اور سیکورٹی کے حصار میں رہتے ہوں، جہاں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی مالی مدد کرنے والوں کی کثرت ہو تو اس ملک میں امن و امان کی روشنی کیسے پھیل سکتی ہے وہاں عام لوگوں کی جان و مال کو کیسے تحفظ مل سکتا ہے۔
جہاں پہ لوگ ہی ظلمت پرست ہو جائیں
وہاں پہ پھر کوئی سورج نکلنے والا نہیں