Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
277

قُرآن اور بچّوں جیسا تجسُّس۔

قُرآن کے اسلُوب پر غور کرنے والے ہی جانیں گے کہ قُرآن کا مطمعٔ نظر اپنے قارئین میں بچوں جیسا تجسُّس پیدا کرنا ہے۔ بچہ ہی حقیقی دانشور ہے کیونکہ حقیقی دانشور کے پاس ہمیشہ ایسے سوال ہونگے جن سے لامُحالہ نئےسوال وجواب جنم لیں۔

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ بچے بولنا سیکھتے ہی سوالات شُروع کرتے ہیں۔

آپ اپنی طرف سے اُنہیں بہترین جواب دے لیجیے وہ بس ایک لمحہ آپکے طویل جواب پر غور کریں گے پھر مُمکن ہے اُنکا اگلا مُختصر ترین سوال کیوں، کیسے ،کب ،کہاں وغیرہ ہوں۔

بچوں کے سوالات ختم نہیں ہوتے اور یہی تجسُّس اُنکے مُسلسل سیکھتے رہنے کی وجہ بنتا ہے۔

بچّوں کا تجسُّس فطری رویّہ ہے، یعنی فطرت نے ہی انسان میں یہ تجسُّس رکھا تاکہ وہ سوال سوچے، اُنکے جواب ڈھونڈے، جوابوں پر غور کرے اور پھر اگلے سوال سوچے۔

سوال سوچنے اور جواب ڈھونڈ کر اُسے پراسس کرنے کا نام ہی غوروفکر ہے جِسکے نتیجے میں دانش ملتی ہے لیکن دانش مندی ایک رویّہ اور مُسلسل عمل کا نام ہے جسکے دوران جواب تو ملتے ہیں لیکن تجسُّس اور سوال کا سلسلہ کبھی نہیں رکتا

قُرآن عین اس انسانی نفسیات کے مُطابق اندازِ بیان اختیار کرتے ہُوئے قاری کے ذہن میں سوال اُٹھاتا ہے،

پھر خُود ہی ایسا جواب دیتا ہے کہ نئے سوال اُٹھیں،

پھر وضاحت کرتے ہُوئے قاری کو اُکساتا ہے کہ وہ اپنے گِردو پیش کے تناظُر میں جواب پر غور کرے اور جیسے ہی قاری کا ذہن غوروفکر کے بعد ایک نیا سوال بُنتا ہے قُرآن پھر ویسی ہی وضاحت پیش کرے گا جسکے نتیجے میں کُچھ جواب ملیں اور کُچھ سوال اُٹھیں،

یہ سلسلہ قُرآن کی پہلی سے آخری آیت تک جاری رہتا ہے اور درمیان میں قُرآن بار بار اُن جوابوں کی یاددہانی بھی کرواتا رہتا ہے جن کو قاری کا ذہن حتمی جواب مان چُکا ہو۔

قُرآن کی پہلی سُورۃ کو ہی لے لیجیے اور قُرآن کے انداز کا مُشاہدہ کیجیے۔

سُورۃ خلق قُرآن کی پہلی سُورۃ ہے اس میں اللہ اپنے رب کے نام سے یعنی اپنے بھیجے ہُوئے علم کو پڑھنے یعنی سیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔

سیکھنے اور پڑھنے کی ضرُورت اور اہمیت تو تسلیم شُدہ ہے کوئی سوال کھڑا نہیں ہوگا لیکن میرے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ اللہ کا علم ہی کیوں سیکھُوں۔

جواب یہیں موجُود ہے کیونکہ وہ ربّ ہے۔ ربّ برّ سے نکلا ہے برّ ایسی زمین کو کہتے ہیں جو زندگی کی ضمانت دے یعنی اس میں وہ چیزیں پیدا ہوں جو زندگی کے لیے ضرُوری ہیں یعنی مُجھے اس لیے اپنے ربّ کے علم کو پڑھنا چاہیے کہ وہ مُجھے پالنے کا بندوبست کرتا ہے۔

میرے ذہن میں سوال اُٹھے گا کہ زمین تو بہرحال میری پیدائش سے پہلے ہی موجُود تھی میرے لیے خاص طور پر تو نہیں بنائی گئی۔

قُرآن زندہ ہے اسے میرے ذہن میں اُٹھنے والے سوال کا پتا تھا۔ تبھی اللہ کا احسان یاد کرواتے ہُوئے جواب دیتا ہے کہ ربّ نے تُمہیں پیدا کیا۔

میرے ذہن میں فوراََ اس احسان سے یہ احساس اُبھرتا ہے کہ واقعی میں تو لاکھوں سپرمز میں سے بس ایک سپرم تھا.

جیسے میرے ساتھ کے لاکھوں سپرم مُکمّل انسان بنے بغیر ضائع ہو گئے مُمکن تھا کہ میں بھی ضائع ہو جاتا

لیکن یہ واقعی اللہ کا احسان ہے کہ اُس نے اُس وقت جب میں خُوردبینی جراسیم جیسی حالت میں تھا مُجھے لاکھوں خُوردبینی جراسیموں میں سے چُن کر میری ماں کے پیٹ میں موجود ایگ سے ملایا۔

اللہ فوراََ اگلی آیت میں بتاتا ہے کہ میرا کرم یہیں تمام نہیں ہُوا تھا اُسکے بعد بھی تُم جمے ہُوئے خُون کے ایک لٹکتے ہُوئے لوتھڑے جیسے تھے اُس کیفیّت سے تُمہیں آدمی بنانا میرا ہی تو کام تھا۔

یہ پڑھتے ہی میرے ذہن میں خیال آتا ہے کہ میں تو آج تک لوگوں کا احسان مند رہا یہ کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ اللہ نے مُجھے لاکھوں میں سے چُن کر جو پیدا ہی کر دیا اس سے بڑا کرم کوئی مُجھ پر کیا کر سکتا ہے۔

ساتھ ہی اللہ اگلی آیت میں میرے احساسات کو زُبان دیتے ہُوئے میری زُبان سے کہلواتا ہے کہ ہاں تبھی تو تُمہیں میرے نام سے یعنی میرا علم پڑھنا چاہیے کہ تُمہارا رب ہی تُمہارے لیے سب سے بڑا کریم ہے۔

اگر میں صرف اس ایک پہلی سُورۃ کے نفسیاتی اسلُوب پر لکھنے بیٹھوں تو شاید ایک دن تک لکھتا جاؤں۔ اس تحریر کا مقصد بس یہ بتانا ہے کہ اللہ قُرآن میں ہر انسان سے اُسکی کپیسٹی کے مُطابق باقائدہ مُکالمہ کرتا ہے۔

کہیں کہے گا کیا تُم نے ایسے شخص کو دیکھا؟ کہیں کہے گا کیا تُم نے غور کیا؟ اللہ قُرآن میں ایسے سوال بار بار اُٹھا کر سوچنے پر اُکسائے گا اور جب میرا تجسُّس اُبھرتا ہے جو جو بھی فطری خیال میرے ذہن میں اُبھرے گا اگلی آیات اُسی خیال کو لے کر چلیں گی۔

قُرآن میں چھے ہزار چھے سو چھیاسٹھ آیات ہیں جن میں سے سات سو چھپن میں سوچنے اور غور کرنے یعنی ہرقسمی سوال اُٹھانے کی ڈائرکٹ دعوت ہے اور دیگر سب آیات میں ایسے جوابات ہیں جو تجسُّس کو مزید بڑھائیں گے اور چُونکہ قُرآن کے مُطابق کائنات اور ہمارے نفس میں بھی اللہ کی آیات ہی ہیں لہٰذا ضرُوری ہے کہ قُرآن کے دیے ہُوئے تجسّس کے نتیجے ہمارے ذہن میں اُٹھنے والے بہت سے سوالات کے جواب فطرت یعنی کائنات اور نفس کے عُلوم حاصل کرنے سے ملیں گے۔

یعنی ہم میں سے بعض کو فزکس، کیمسٹری، بیالوجی اور نفسیات کے عُلوم سیکھنے ہونگے اور بعض کو اکنامکس سوسیالوجی قانون اور پُولیٹیکل سائنس وغیرہ میں آگے بڑھنا ہوگا۔

یہ سب عُلومِ نافع دینی عُلوم ہیں بس ان سب عُلوم کے ماہرین کو ہمیشہ قُرآن کو ایک بچے جیسے تجسُّس کے ساتھ ایسے پڑھنا سیکھنا ہوگا کہ قُرآن اُس سے مُکالمہ کرے۔

قُرآن کی تفسیریں پڑھنا اچھی بات ہے لیکن قُرآن کا علم ایک چلتا دریا ہے اور دریا کتابوں میں قید نہیں ہوتے۔

اپنے سوال اور تجسُس نہ خُود ختم ہونے دیں نہ کسی کو ختم کرنے دیں۔ اللہ اپنی آیات میں تجسُّس اور استدلال کرنے والوں سے مُحبت کرتا ہے اور اُنپر اپنی پُکار کا مفہُوم کھولتا ہے۔

آئیے قُرآن سے انفرادی مُکالمہ شُروع کریں یہ آپکا مُنتظر ہے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں