562

پاکستان کی معیشت کا حل

“جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ اقوام قائدانہ کردار کی حامل ہوا کرتی ہیں”. ماضی قریب میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کا شرف حاصل ہوا اس دوران انفرادی طور پر میری گفتگو زیادہ تر فرانس، جرمنی، روس اور ایک آدھ برطانیہ کے طبعیات دانوں سے ہوئی, انکے Econophysics, industrial physics اور statistical physics سے منسوب تحقیقاتی مقالوں کے بارے میں جان کر دھنگ رہ گیا! اور مجھے احساس ہوا کہ دراصل ایسے مقالوں اور تحقیق کی اشد ضرورت تو پاکستان کوہے۔

ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے پاکستان کو انگنت مسائل اور چیلنجز سے نبرد آزما ہونا ہے لیکن ان میں سے دو کا فوراً حل ملک کی بقاء کیلئے ناگزیر ہے. پہلا معاشی حالات کی بہتری اور دوسرا موثر خارجہ پالیسی کا قیام. یقیناً اول الذکر کا تعلق  بل واسطہ یا بلا واسطہ باقی تمام مسائل سے ہے. اس لیے پہلے اول الذکر کی گتھی سلجھا دیتے ہیں آخر میں بعد الزکر کا بھی بندوبست کر لیں گے۔ 

مذکورہ مسائل کے حل کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے کانفرنس کے دوران ہونے والی انفرادی گفتگو کا خلاصہ زہن میں رکھا اور تب سے اپنے تئیں تحقیق کرنے کی ٹھان لی مگر یہ جان کر کچھ دیر کیلئے جی اچاٹ سا گیا کہ پاکستان میں اکثر یت بشمول ارباب اختیار Econophysics سے واقف ہی نہیں. واقع کچھ یوں ہے کہ میرا پاکستان کے ایک مشہور انگریزی اخبار میں معیشت پہ کالم چھپا اور اگلے ہی روز علی الصبح کچھ صحافی اور سیاستدان دوست میرے فلیٹ میں آدھمکے اور بحث شروع کر دی دونوں فریقین کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ” بھلا طبعیات کا معیشت کیساتھ کیا تعلق” اور پھر وہی گسے پٹے اقوال کہہ گئے  جو اکثر خود ساختہ داناں کہا کرتے ہیں “کہ ملک میں ہر کوئی دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے وغیرہ” میں دونوں اطراف وقفے وقفے سے ٹکٹکی باندھتے ہوئے انکے دلائل سنتا گیا. شدید تعجب تب ہوا جب پاس بیٹھے بین الاقوامی تعلقات ایک استاد نے میری تعلیم کی اہمیت یاد دلاتے ہوئے کہا “سکول کالج پہ لکھا کریں” . خیر میں نے دھیمے سے لہجے میں یہ جملہ کہتے ہوئے  انکو خدا-حافظ کہا” دنیا کی سر فہرست دس معیشتیں تحقیق میں بھی پہلی دس میں سے کسی عدد پر ہیں”۔ 

قومی مفاد کی خاطر عرض ہیکہ یورپ جب خانہ جنگی سے اکتاچکا تھا تب سے اسکی قیادت نے بھانپ لیا تھا کہ سائنسی اصولوں پہ معیشت کو استوار کرنے سے معاشی انقلاب برپا ہو سکتا ہے اس ضمن میں بہت سے اقدامات اٹھائے گئے مگر ہماری بحث کا محور 1968میں یورپین فیسیکل سوسائٹی (EPS) کے قیام سے اب تک کی ترقی پر ہوگا.اس سوسائٹی میں یورپ کے معروف طبعیات دان شامل ہوئے جو27 یورپین ممالک کے ساتھ نیدرلینڈ اور سویزرلینڈ سے بھی تھے. حکومتیں ان سائنس دانوں کی تحقیق شدہ تجاویز سے استفادہ حاصل کر تی رہیں اور یورپ بدلتے ہوئے بامِ عروج حاصل کر گیا. سال 2016 اور 2019 میں سینٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ (CEBR) نے اس سوسائٹی کے  معاشی ثمرات پہ جامع رپورٹس شائع کی ہیں جن کی مختصر جھلک یہ ہے. یورپ میں طبعیات پر مبنی صنعت سے معیشت میں 4.40 ٹرلین یورو کا  سالانہ ریونیو میں اظافہ ہوتا ہے اور اس میں بہترین دورانیہ 2011_16 کے درمیان رہا ہے. اسی صنعت کا جی وی اے ہر سال 1.45 یورو سے تجاوز کرتاہے. E28 کاروباری معیشتوں کے کل کاروبار میں عام طور پر طبعیات پر مبنی صنعت کا حصہ 16 فیصد ہے. 15.3 ملین نوکریوں کا ہر سال اضافہ ہوتا ہے. رپوٹس میں فزکس پر مبنی شعبوں کی ایک خاصیت یہ بھی واضح کی گئی کہ ان میں کسی بھی معاشی جارہیت کا مقابلہ کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔

رپوٹس کی سب سے اہم اور قابل زکریا حقیقت یہ سامنے آئی کہ فزکس کے طریقہ کار پہ ڈیٹا کا تجزیہ دوسرے شعبوں سے کئی درجے موثر ہوتا ہے. علاوہ ازیں رپورٹ میں طبعیات کا ایک وسیع پیمانے پر کئی شعبوں میں کردار کو واضح کیا ہے ،جیسے کہ مینیوفیکچرنگ، تحقق و ترقی، معلومات اور ترسیل، مواصلات، توانائی کی پیداوار، تیل اور گیس اورکئ دوسرے شعبہ جات شامل ہیں۔ 

بات اگر سپر پاور یعنی امریکہ کی ہو جائے تو مطلع مزید صاف ہو جائے گا. یہ تب کی بات ہے جب امریکہ فقط اپنے خطہ کا مظبوط ملک تھا. اس دوران 1899 میں امریکن فزکس سوسائٹی (APS) کا قیام عمل میں آتا ہے اور ساتھ ہی امریکہ کی تقدیر بدلنی شروع ہو جاتی ہے. طریقہ کار یہاں بھی ویسا ہی ہے یعنی سائنس دان ریسرچ پر مبنی تجاویز حکومت کو دیتے رہے اور حکومت سنجیدگی سے عمل پیرا ہوتی رہیں۔

 اس کی کارکردگی پر جو جامع رپورٹ مرتب ہوئی اسکا مختصر خلاصہ یہ ہے. طبعیات پر مبنی صنعت 3.2 ٹریلین ڈالر سالانہ معیشت میں حصہ ڈالتی ہے اور 1.1 ٹریلین ڈالر لاگت کی درآمدات میں سالانہ اظافہ کرتی ہے. اسی رپورٹ کے مطابق صرف مالی سال 2016 _17 میں 11.5 ملین نئی نوکریاں اس صنعت سے وجود میں آئیں. یہاں بھی تقریباً یورپ کیطرح اکثر شعبوں میں فزکس کا کردار ہے جن کی فہرست بیان کر چکا. مزید یہ کہ امریکہ اور یورپین ممالک کی انفرادی ترقی کیساتھ ساتھ چائنہ کی دھماکہ خیز ترقی کا راز بھی طبعیات کے کرشموں میں پنہاں ہے۔

اب ذرا خارجہ محاذ پہ غور کیجئے! ان سوسائٹیز کے آپس میں دوستانہ مراسم ہوا کرتے ہیں جو ٹیکنالوجی میں تعاون اور باہمی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں یوں ممالک ایک دوسرے کی ٹیکنالوجی سے جدت اور ترقی کے مراحل طے کر نے کے ساتھ ساتھ سائنسی سفارت کاری سے مفادات حاصل کرتے ہیں. کیا قوم وہ وقت بھول چکی جب ایٹمی پروگرام کے آغاز میں بین الاقوامی تحفظات کو ڈاکٹر عبدالسلام کی سفارت کاری سے دور کیا تھا؟

مختصر یہ کہ حکومت وقت اگر اپنا نام سنہری حروف میں لکھنا چاہتی ہے تو سائنسی کلچرل کو فروغ دے، محض ماہر معاشیات اور کاروباری شخصیات پہ اندھی تقلید تو کب کے کرتے چلے آرہے ہیں یادرہے یہ سائنس کی صدی اسی پہ تقلید کا زمانہ ہے! روایتی زہنیت کے چنگل سے نکلنا وقت کی اہم ضرورت ہے. لخاظ پاکستان فزکس اور دوسری سائنسی سوسائٹیز کو سر گرم اور سائنس دانوں کو بھی باقی حضرات کیساتھ پالیسیاں بنا نے میں برابر مواقع فراہم کئے جائیں ، نصاب اور امتحانات کو مکمل طور پر عملی سر گرمیوں سے ہم آہنگ کیا جائے، پاکستان چائنہ اکنامکس کوری ڈوری میں طبعیات پر مبنی صنعتوں کو نا صرف ری نیگو شیٹ کیا جائے بلکہ دوسری صنعتوں پر فو قیت بھی دی جائے. اکثر جدید سائنسی علوم  اور ٹیکنالوجی  چونکہ ریاضی اور طبعیات سے ماخوذ ہیں اس لیے مزکورہ رپورٹس کی روشنی میں معاشی ڈیٹا مرتب اور تجزیاتی مرحلہ سٹیٹسٹیکل فزکس کے سپرد کیا جائے اور اس سے منسلک شعبہ جات کو طبعیات دانوں کے مشوروں کا پابند کیا جائے.اسی طرح سٹیل مل اور کئی  مزید اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں. اگر حکومت ان پر سنجیدگی سے اقدامات اٹھالے تو عنقریب پاکستان بین الاقوامی افق پہ قائدانہ کردار کیساتھ ابھر کر سامنے آئے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں