کہتے ہیں ایک میراثی کا دس سالہ بیٹاجوبڑالاڈلہ تھا اس نے ایک بار ماں کی گودمیں سررکھتے ہوئے پوچھا۔اماں۔ اگریہ چوہدری کرامت علی مرگیاتوپنڈکاوڈاچوہدری کون بنے گا۔؟ ماں نے کہا اس کا چھوٹا بھائی شرافت علی، بیٹے نے پھرپوچھا:اگرشرافت علی بھی مرگیاتو۔۔؟ ماں بولی: اس کابیٹاچوہدری شجاعت علی۔ بیٹے نے پھرسے پوچھا۔ماں اگرشجاعت علی بھی مرگیاتو۔۔؟ ماں بولی:اس کابیٹاچوہدری نادرعلی۔بیٹے نے کچھ دیرسوچتے ہوئے پھرپوچھا۔اماں اگرچوہدری نادرعلی بھی مرگیاتو۔۔؟ ماں پہلے مسکرائی۔پھرنم آنکھوں کے ساتھ بیٹے کابوسہ لیتے ہوئے کہنے لگی۔ پتر:یہ سارے بھی مرجائیں توپھربھی تم پنڈکے چوہدری نہیں بن سکتے۔ یہی حال اس ملک میں ہم جیسے غریبوں کاہے۔تحریک انصاف کی حکومت میں ہم سمجھ رہے تھے کہ اورکچھ ہویانہ لیکن اس حکومت میں کم ازکم کسی پنڈکا چوہدری توکوئی غریب بن ہی جائے گا لیکن افسوس ہم سوچتے رہ گئے اور بات وہی میراثی کی اماں والی نکلی۔
اب واقعی ہمیں یقین ہوگیاکہ یہ سارے چوہدری،خان،نواب،وڈیرے،رئیس اورسائیں اگرمربھی جائیں توتب بھی اس ملک میںیہ غریب کسی پنڈکے چوہدری،خان،نواب،رئیس،وڈیرے اورسائیں نہیں بن سکتے۔ شریف،زرداری،مخدوم،قریشی ،سردار،خان،نواب،چوہدری اوررئیس توسیاست کوباپ داداکی جاگیرسمجھ کراسے میراث کے طورپراپنوں اورخاندان والوں میںتقسیم کرتے رہے لیکن میرے کپتان توان سب میراث خوروں سے مختلف بہت ہی مختلف تھے۔وہ توسیاست کوباپ داداکی جاگیرسمجھنے والوں پرنہ صرف دن میں ہزاربارلعنت بھیجتے تھے بلکہ وہ اس خودساختہ سیاسی میراث کی تقسیم کوبھی ایک ناقابل معافی وتلافی جرم اورحرام قراردیتے رہے۔لیکن یہ کیا۔۔؟ اقتدارمیں آنے کے بعدتووہی کپتان جوکبھی ڈی چوک میں کھڑے ہوکرمسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی،اے این پی،جے یوآئی اوردیگرسیاسی جماعتوں اوران کے لیڈروں پراپنوں کونوازنے کے الزامات اورتیربرساتے رہے اسی کپتان نے اپنوں کوچن چن کرایسانوازاکہ اف توبہ۔عمران خان کی حکومت میں بھی غریب توپنڈکے چوہدری نہیں بن سکے لیکن باہرسے آنے والے پورے ملک کے چوہدری بن گئے۔
وزیراعظم عمران خان جب تک ڈی چوک اورویٹنگ چوک میں تھے تب تک یہ امیدکی جارہی تھی کہ آج نہیں توکل غریب کابیٹاضرورکسی نہ کسی طریقے سے پنڈکاچوہدری بن ہی جائے گالیکن عمران خان کے وزیراعظم بننے اورملک میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعداب نہ صرف یہ امیدہمیشہ ہمیشہ کے لئے دم توڑچکی ہے بلکہ ساتھ غریبوں کی ایک اوربڑی غلط فہمی یاخوش فہمی بھی دورہوگئی ہے ۔کل تک اس ملک کے غریب یہ سمجھ رہے تھے کہ شریفوں،زرداریوں،چوہدریوں اوررئیسوں سے جان چھوٹنے پران کے حالات بدل جائیں گے لیکن ملک میں پہلی بار شریفوں،زرداریوں،چوہدریوں اوررئیسوں سے باہرکے ایک کپتان کی حکمرانی نے یہ بات بھی ثابت کردی ہے کہ اس ملک کے حکمران چاہے شریف ہوں،زرداری ہوں ،چوہدری ہوں ،رئیس،خان اورنواب ہوں یاپھرکوئی ایک عام کپتان۔اس ملک میں غریبوں کے جوحالات پہلے تھے وہی بعدمیں بھی رہیں گے۔البتہ اس سے بدترہونے میں آج کی طرح دیرنہیں لگے گی۔آج اس ملک میں غریبوں کی جوحالت ہے ایسی حالت توان شریفوں،زرداریوں اوررئیسوں کے دورمیں بھی نہیں تھی ۔
ماناکہ سیاسی چوہدریوں کے ان ادوارمیں غریب کاکوئی بیٹاپنڈکاچوہدری نہیں بن سکالیکن ان چوہدریوں کی حکمرانی میں غریب اس طرح گلی گلی ذلیل اوررسوابھی تونہیں ہوا۔پنڈکاچوہدری توعمران خان نے بھی کسی غریب کے بیٹے کونہیں بنایالیکن اوپرسے مہنگائی،غربت،بیروزگاری اوربھوک وافلاس سے غریبوں کاجوبراحال کیا۔اس کی وجہ سے آج اس ملک کاہرغریب رونے ،دھونے ،چیخنے اورچلانے پرمجبورہے۔پہلے غریب جھولیاں پھیلاپھیلاکردعائیں مانگتے رہے کہ یااللہ ملک میں عمران خان اورتحریک انصاف کی حکومت آئے لیکن اب عمران خان کی محض دوسالہ حکمرانی کے بعدغریب یہ کہتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ حکومت نوازشریف کے پاس ہو۔۔آصف علی زرداری یاپھرعمران خان کے پاس ۔ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہمارے لیئے سارے ایک جیسے اور برابرہیں۔ 22کروڑعوام نے وزیراعظم عمران خان سے جس طرح امیدیں باندھی تھیں۔بوڑھے،جوان،مرداورعورتیں جس طرح عمران خان کی کامیابی کے لئے جدوجہدکرکے قربانیاں دے رہے تھے۔یقین نہیں آرہا۔کہ وہ عمران خان 22کروڑعوام کواس طرح مایوس ،پریشان اورحیران کریں گے۔
بائیس سال سے عمران خان کی جنگ توموروثی سیاست اورکرپٹ مافیاکے خلاف تھی لیکن آج ان کی حکمرانی اورطرزحکمرانی کودیکھ کرلگتاہے جیسے موروثی سیاست اورمافیا کاہمارے اس کپتان اوران کی حکومت سے کہیں گہراکوئی بہت ہی گہراتعلق ہو۔تحریک انصاف کی حکومت میں آج ایک طرف اگر چوہدری کرامت علی کے بیٹے شرافت علی جیسے صاحبزادگان پنڈکے چوہدری بنے بیٹھے ہیں تودوسری طرف پورے ملک میں مافیا کابھی ایک راج قائم ہے۔کپتان کی اس حکومت میں لاڈلے وزیروں ۔۔مشیروں اورخودوزیراعظم عمران خان نے اس طرح ایمانداری کے ساتھ کام نہیں کیاہوگاجس طرح ایمانداری کے ساتھ مافیاغریب عوام کولوٹ رہی ہے۔تحریک انصاف کے اقتدارمیں آنے کے وقت آٹے کاجوبیس کلوتھیلاسات سے آٹھ سومیں مل رہاتھاآج وہ تیرہ سے چودہ سومیں مارکیٹ کے اندربک رہاہے۔جوچینی پچاس سے پچپن روپے کلومل رہی تھی اب وہ 95اورسوسے کم پرنہیں مل رہی۔گھی کا جوڈبہ آٹھ اورنوسوروپے پرمارکیٹ کے اندرفروخت ہوتاتھاآج اس کی قیمت بھی چودہ اورپندرہ سوسے ہرگزکم نہیں۔ یہی حال روزمرہ استعمال کی دیگراشیاء کا بھی ہے۔اورتواوراس حکومت میں مافیاسے وہ ادویات بھی محفوظ نہیں رہی جس کے ذریعے بیمار غریب آرام سے زندگی کی کچھ سانسیں لیاکرتے تھے۔سچ پوچھیں توپورے ملک میں مافیانے افراتفری اورانت مچارکھی ہے۔گلی گلی اورمحلے محلے میں لوٹ ماراوراندھیرنگری کودیکھ کرایسامحسوس ہوتاہے کہ جس طرح اس ملک میں تحریک انصاف کی نہیں مافیاکی کوئی حکمرانی ہو۔باہرنکل کردیکھیں توہرشخص نے اپنی حکمرانی قائم کی ہوئی ہے۔عمران خان اس ملک کے وزیراعظم ہیں یانہیں ۔۔؟لیکن پی ٹی آئی کی اس حکومت میں ایک ریڑھی بان اورچھابڑی فروش سے لیکرقصائی،نئی،الیکٹریشن،پلمبر،ڈاکٹر،انجینئر،تاجر،سرمایہ دار،صنعتکار،پراپرٹی ڈیلر،دودھ فروش، درزی، ترکھان، سبزی فروش، تندورمالک اورکریانہ سٹوروالے تک ہرایک نے اپنی ایک الگ دنیااورریاست بناکراپنی حکمرانی قائم کی ہوئی ہے۔ایک ہی صوبے،ایک ہی شہر،ایک ہی گائوں،ایک ہی مارکیٹ،ایک ہی بازار،ایک ہی منڈی اورایک ہی چادراورترپال تلے ہرشخص ایک ہی چیزالگ الگ بھائوپربیچ رہاہے۔ایک ہی چیزکے الگ الگ ریٹ دیکھ کریوں لگتاہے کہ جیسے یہاں انسانوں نہیں جنگل کاکوئی قانون ہو۔ملک میں بے شک حکومت کپتان اور تحریک انصاف کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل حکمرانی کس اورکی ہے۔ کپتان کی اگرملک پرحکمرانی ہوتی توملک میں آج یہ حالات کبھی نہ ہوتے۔
سرپھروں،سرکشوںاورلوٹے ولٹیروں کولگام ڈالناحکومت کاکام ہے۔موجودہ حکومت اگرغریب عوام کولوٹنے والے ان لٹیروں کولگام نہیں ڈال سکتی تواس کامطلب یہی ہے کہ حکومت اس مافیاکے سامنے بے بس اوربے وس ہے۔اورحکومت اگرسچ میں بے بس ہی ہے توپھربیگانوں کے ساتھ اپنوں کوبھی مانناپڑے گاکہ ملک میں اس وقت چاہے حکومت کپتان اورپی ٹی آئی کی ہی کیوں نہ ہولیکن اصل حکمرانی اس ملک میں کل بھی مافیاکی تھی اورآج بھی مافیاکی ہی ہے۔کپتان کے کھلاڑیوں کواب یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ نوازشریف اورآصف علی زرداری کی طرح 22کروڑعوام کے وزیراعظم اورامیدوں کے محورعمران خان بھی مافیاسے ہاراوربری طرح ہارچکے ہیں ۔تب ہی توپی ٹی آئی کی حکومت میں ملک کے اندرمافیاکی حکمرانی قائم ہے۔