جب کرونا وائرس کا پھیلاؤ زیادہ ہوا تو جہاں ایک طرف ہسپتالوں پر مریضوں کا پریشر بڑھ گیا تھا وہیں دوسری طرف زیادہ اموات کی وجہ سے گورکنوں اور آخری رسومات کرنے والوں پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوگیا تھا، ہر روز اس دباؤ میں اضافہ ہوتا گیا، یہاں تک کہ ہسپتالوں میں بیڈ نایاب ہو گئے اور مردہ خانوں میں مردے رکھنے کیلئے جگہ ناپید ہوگئی، لاشیں رکھنے کیلئے زیادہ متاثرہ ممالک میں سڑکوں پر کنٹینر کھڑے کردیئے گئے اور ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ان کنٹینروں میں بھی لاشوں کیلئے جگہ ملنا بند ہوگئی، قبرستانوں میں نئی قبریں بنانے کیلئے جگہ کم ہوگئی، کئی ممالک میں لاشوں کو بغیر آخری رسومات ادا کئے جلایا جانے لگا، حال ہی میں بی بی سی پر خبر آئی ہے کہ جنوبی امریکہ کے ملک ایکواڈور میں سلویا نامی ایک خاتون کی کہانی پبلش ہوئی ہے جس میں موصوفہ بتاتی ہیں کہ انکے شوہر نے انکے ہاتھوں میں دم توڑا لیکن کاغذی کاروائی کے دوران ہسپتال والوں سے غلط ٹیگنگ کی وجہ اسے انکے شوہر کی لاش گم ہوگئی اور چار مہینوں کی انتھک کوششوں کے بعد وہ دوبارہ لاش حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں لیکن اس وقت تک لاش گل سڑ کر ٹکڑوں میں بٹ چکی تھی، اس سے ملتے جلتے سینکڑوں واقعات میڈیا میں اب تک رپورٹ ہوچکے ہیں۔
پوری دنیا میں کرونا کی وجہ سے چھ لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں، لیکن حیران کن طور پر ان میں صرف 253 ہلاکتیں یورپی ملک ناروے میں ہوئی ہیں، اس وقت بہت کم مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں اور ان میں سے ایک مریض بھی وینٹی لیٹر پر نہیں ہے، ناروے کی وزیراعظم ایرنا سولبرگ نے وبا پر قابو پانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے تھے اور انکی عوام نے سخت لاک ڈاؤن میں حکومت کا ساتھ دیا تھا، ان اقدامات کی وجہ سے نہ صرف کرونا وائرس سے اموات کم ہوئیں بلکہ دوسری بیماریوں میں مرنے والوں کی تعداد بھی غیر معمولی طور پر کم ہوگئی، اور اب یہ حال ہے کہ نصف درجن فیونرل ہومز یعنی آخری رسومات ادا کرنے والی کمپنیوں نے حکومت سے کہا کہ ان کی مدد کی جائے کیونکہ کام بند ہونے کی وجہ سے وہ قلاش ہوگئے ہیں۔
گزشتہ تین نسلوں سے ناروے میں گورکنی کرنے والے لینڈے خاندان کے رکن ایرک لینڈے نے میڈیا کو بتایا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف اقدامات نے دوسری بیماریوں کی بھی کمر توڑ دی ہے اور وہ بوڑھے اور بیمار لوگ جو عام حالات میں مر جاتے تھے، وہ بھی ادھر ہی گھوم رہے ہیں، پہلے انکے پاس ایک ماہ میں 30 جنازے آجاتے تھے لیکن مارچ کے بعد ماہانہ 10 سے بھی کم میتیں آرہی ہیں اور ان میں کرونا وائرس والی تو ایک لاش بھی نہیں آئی، اسلیئے انہیں کرایہ اور دوسرے بل بھرنے کے لیے حکومت سے 32 ہزار نارویجیئن کرونا امداد لینا پڑی ہے۔ ناروے میں گزشتہ سال کے مقابلے میں مئی میں 6 فیصد اور جون میں 13 فیصد کم اموات ہوئی ہیں جسکی وجہ سے گورکن کمپنیوں کا کاروبار بند ہونے کے نزدیک پہنچ گیا ہے اور وہ ناروے حکومت سے ہزاروں نارویجیئن کرونے امداد لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
نارویجئن شہر الیسنڈ میں الفا فیونرل ہوم آخری رسومات ادا کرنے والی کمپنی نے نہ صرف اپنے ملازمین کے کام کے اوقات کم کر دیئے ہیں بلکہ حکومت سے امداد بھی طلب کی ہے، کیونکہ مارچ سے مئی تک انکا 70 فیصد کام کم ہوگیا ہے، اس کمپنی کے مالک اوڈ سویرے اوئی نے امید ظاہر کی ہے کہ مالی پریشانیوں کا یہ برا وقت جلد ختم ہوجائے گا اور موسم خزاں میں فلو اور دوسری بیماریوں کے پھیلنے سے لوگ دوبارہ پہلے کی طرح مرنا شروع ہوجائیں گے?، انکے منہ میں خاک، اللہ انکا کاروبار ختم ہی کردے تو اچھا ہے، ظالم اپنا کاروبار بڑھانے کیلئے دوسروں کے مرنے کی دعا کررہے ہیں، اللہ سے دعا ہے کہ وہ ناروے کی طرح دنیا کے باقی ممالک میں بھی ایسے ہی اموات کم کردے تاکہ لوگ گھروں سے نکل کر پہلے کی طرح اپنے روزگار کیلئے تگ ودو شروع کرسکیں، آمین!
#طارق_محمود