1,089

کیا اسرائیل نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کردیا ہے؟

کیا اسرائیل نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کردیا ہے؟

اس سوال کا جواب ہے، شاید ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں

یکم اور دو جولائی کی رات دو بجے ایرانی صوبے اصفہان میں نتانز شہر سے تیس کلومیٹر دور ایران میں سنٹری فیوج پروڈکشن کے مرکزی پلانٹ میں زوردار دھماکوں کی آوازیں اور بڑے پیمانے پر آگ لگنے کی اطلاعات ملی ہیں، ایک لوکل دہشت گرد گروپ چیتاز آف ہوم لینڈ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

یہ واقعہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ایک منصوبہ بندی سے کیئے گئے کئی واقعات کا حصہ ہے، ان واقعات میں بیلسٹک میزائلوں کے کارخانوں کو تیل اور بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے پروڈکشن یونٹس میں آگ لگنا اور دھماکے ہونا بھی شامل ہے، ایک بڑے پیٹروکیمیکل پلانٹ سے کلورین گیس کے اخراج کا واقعہ بھی سامنے آیا ہے، چند ایرانی حکام نے ان حملوں کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہونے کے چنے کا اظہار کیا ہے، جب اسرائیلی وزیر خارجہ سے میڈیا نمائندگان نے اس بابت سوال کیا تو انکا کہنا تھا کہ ایران میں ہماری کارروائیوں کے متعلق بات نہ کی جائے تو اچھا ہے، دوسرے لفظوں میں انہوں نے یہ مان لیا ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملے انکے ایماء پر ہی ہوئے ہیں، دوسری طرف ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی ان واقعات پر ابھی تک دم بخود ہے اور کھل کر کسی ملک یا تنظیم کا نام لینے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کر رہی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ 2015 میں جرمنی سمیت پانچ عالمی طاقتوں امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس نے امریکی صدر براک اوباما کی قیادت میں ایران کو ایٹم بم اور بیلسٹک میزائل بنانے سے روکنے کیلئے جو جوہری معاہدہ کیا تھا اسے ٹرمپ نے اسرائیلی پریشر پر کلعدم قرار دیکر ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں جس سے ایرانی اکانومی کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا اور ایران نے غصے میں آ کر دوبارہ ایٹم بم اور بیلسٹک میزائل بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔

اس پس منظر میں یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ ایران کو ایسا کرنے سے روکنے کیلئے امریکہ یا اسرائیل کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے، ڈائریکٹ حملہ اس وقت شاید امریکہ اسرائیل کے مفاد میں نہیں تھا، لہذا ہوسکتا ہے کہ اسرائیل نے ایران میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ حملہ کروا دیا ہو، جو بھی ہوا ہے، ایران کیلئے بہت بُرا ہوا ہے اور آنے والے وقت میں ایرانی تنصیبات پر ایسے مزید حملے ہونے کا اندیشہ ہے، ایران اگر چاہتا ہے کہ اسکا حال عراق جیسا نہ ہو تو اسے دوسرے مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا، فرقہ ورانہ اختلافات کو ختم کرنے کی طرف پہل کرنا ہوگی، ایسی صورت میں یورپی یونین کی طرز پر مسلم ممالک کا اتحاد معرض وجود میں آسکتا ہے، اس اتحاد میں شامل مسلم ممالک اپنی کرنسی اور فوج ایک کر سکتے ہیں، قرآن کو مشعل راء بنا کر فرقہ واریت کا خاتمہ کر سکتے ہیں، ایسا صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے جب ان مسلم ممالک کے مفادات ایک ہوجائیں، پاکستان ایران اور ترکی تینوں ایک پٹی میں ہونے کی وجہ سے ایسا اتحاد بنا سکتے ہیں، بعد میں کچھ اور ممالک بھی انکے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں، اگر ایسا ہوگیا تو ان ممالک پر کسی تیسرے فریق کی حملہ کرنے کی جرات نہیں ہوگی اور اگر ایسا نہ ہوا تو باقی بچ جانے والے مسلم ممالک کا حال بھی عراق، لیبیا، شام، یمن اور افغانستان کی طرح ہونے میں دیر نہیں لگے گی، آخر کتنی دیر کبوتر آنکھیں بند کیئے بلیوں کے حملوں سے محفوظ رہیں گے۔ ۔ ۔ ??۔

#طارق_محمود

اپنا تبصرہ بھیجیں