464

قرض میں ڈوبا پاکستان

پچھلے دس سال میں امریکی ڈالر پاکستانی 85 روپے سے 167 روپے تک جا پہنچا ہے، جس میں ڈالر کی قدر میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں %96 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، دوسرے لفظوں میں پاکستانی روپے کا تقریباً سو فیصد زوال ہوا ہے?، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی ہمسایہ ممالک میں انڈین روپیہ، بنگالی ٹکہ اور افغانستانی افغانی سب دو سے سوا دو پاکستانی روپے کے ہو گئے ہیں، تنزلی کا یہ عمل ایسے ہی جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب امریکی ڈالر دوسو روپے کی حد بھی کراس کر جائے گا?، ایک عام شہری ہوتے ہوئے مجھے ذاتی طور پر بنگالی ٹکے کے دو روپے کے ہوجانے پر شرمندگی محسوس ہورہی ہے، ہمارے حکمران اور فیصلہ ساز قوتیں شاید بھنگ پی کر سو رہی ہیں، انہیں یہ سب ہوتا ہوا نظر نہیں آرہاہے، پچاس سال پہلے پاکستان سے آزادی حاصل کرنے والا بنگلہ دیش اس وقت ہر میدان میں ترقی کرتا ہوا پاکستان سے کہیں آگے جاچکا ہے، لیکن پاکستان دن بدن قرضوں میں ڈوبتا جارہا ہے، سن 2008 میں پرویز مشرف کی حکومت کے اختتام پر پاکستان کا کل قرضہ 45 ارب ڈالر تھا، سن 2013 میں پی پی حکومت کے اختتام پر یہی قرضہ 61 ارب ڈالر ہوگیا، سن 2018 میں نون لیگ کی حکومت کے اختتام پر یہ قرضہ 95 ارب ڈالر ہوگیا تھا، جبکہ موجودہ حکومت کے ڈھائی سال میں یہی قرضہ 110 ارب ڈالر ہوگیا ہے اور آئی ایم ایف کی پشین گوئی کے مطابق سن 2023 میں پی ٹی آئی حکومت کے اختتام کے وقت یہی قرضہ 130 ارب ڈالر ہوجائے گا جو پاکستان کے ٹوٹل جی ڈی پی کا تقریباً پچاس فیصد ہوگا، یعنی پاکستان جو کمائے گا اسکا تقریباً آدھا حصہ قرضہ واپس کرنے کی مد میں چلا جایا کرے گا?۔ 

پی پی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں 16 ارب ڈالر کا قرضہ لیا تھا، اسکی وجہ یہ تھی کہ 9-2008 میں دنیا میں فنانشیل کرائسس کی وجہ سے پاکستان کو قرضہ باہر سے ہی کم ملا تھا، اسکا حل زرداری حکومت نے ملک کے اندر بنکوں سے کئی سو گنا زیادہ قرضہ لیکر نکالا تھا، جسکی وجہ سے پاکستان کا انٹرنل ڈیبٹ کئی گنا بڑھ گیا تھا، نون لیگ کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں 34 ارب ڈالر قرضہ لیا تھا اور اب پی ٹی آئی حکومت نون لیگ کے ہی نقش قدم پر چل رہی ہے اور اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں تقریباً نون لیگ جتنا قرضہ پاکستان پر چڑھا دے گی?۔ 

غیرملکی قرضوں کا یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو ڈر ہے ایک کہیں تمام پاکستان ڈیفالٹر ہو کر ہی نہ بک جائے?، اس سے پہلے کہ یہ وقت آئے پاکستانی فیصلہ ساز قوتوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے پاکستان کی بہتری کیلئے کچھ ناگزیر اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے، ناکامی کی صورت میں جو ہوگا وہ علامہ اقبال کے اس شعر کو پڑھ لیں، علامہ نے یہاں ہندوستان کا لفظ لکھا تھا کیونکہ انکی زندگی میں ابھی پاکستان بنا نہیں تھا، میں نے علامہ کی روح سے معذرت کے ساتھ لفظ پاکستان لکھ دیا ہے?۔

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستان والو 

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ?

اپنا تبصرہ بھیجیں