پچھلے دنوں جب شدید بارش ہوئی تو دفتر سے واپسی پر مجھے فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں میری گاڑی کشتی میں نہ تبدیل ہو جائے۔ اچانک ذہن میں آیا کہ گاڑی دفتر میں ہی کھڑی کر دیتا ہوں اور خود آن لائن ٹیکسی پر چلا جاتا ہوں۔ دو دن پہلے ہی میں نے ثمریز سے آن لائن ٹیکسی منگوانے کا طریقہ سیکھا تھا۔ موبائل نکالا اور ٹیکسی کے لیے آرڈر کیا۔ دس منٹ بعد ایک گاڑی قریب آ کر رک گئی۔ میں نے موبائل سے گاڑی کا نمبر چیک کیا‘ ڈرائیور کی شکل دیکھی‘ نام پوچھا اور اطمینان سے بیٹھ گیا۔
میں سٹپٹا گیا ”نہیں نہیں بیٹا… یہ میں نے کب کہا ہے‘ میں اپنی نہیں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
”میری مدد… کیوں؟‘‘
”بس میرا دل کر رہا ہے… ایسا کرو جب تم مجھے ڈراپ کرکے جانے لگو تو جینز کی پینٹ لیتے جانا‘ میں نے زیادہ نہیں پہنی‘ چھ ماہ پہلے پانچ ہزار کی لی تھی…‘‘ میری بات سنتے ہی اس کا چہرہ لال ہو گیا‘ چلا کر بولا ”میں کیوں لوں آپ کی پینٹ؟‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ بچہ انا پرست ہے‘ تسلی دی ”بیٹا! میں تمہاری خود داری کی قدر کرتا ہوں لیکن تمہیں پینٹ لینا ہی ہو گی‘ کسی کی اتنی اچھی گاڑی میں یہ پھٹی ہوئی پینٹ پہن کر بیٹھنا اچھا نہیں لگتا‘‘۔ اس نے زور سے گاڑی کو بریک لگائے اور دانت پیستے ہوئے بولا ”اوئے… یہ میری اپنی گاڑی ہے اور میں شوق سے فارغ وقت میں اسے بطور ٹیکسی چلاتا ہوں اور جس پینٹ کو تم پھٹی ہوئی کہہ رہے ہو وہ آج کل کا فیشن ہے‘ یہ پھٹی ہوئی پینٹ دس ہزار کی ہے…‘‘ میں یکدم سہم گیا اور گھر کے باہر پہنچتے ہی ”نیواں نیواں‘‘ ہو کے اندر چلا گیا۔
میں فیشن ایبل تو ہونا چاہتا ہوں لیکن ہو نہیں پاتا۔ موٹے فریم والی عینک آج کل کا فیشن ہے لیکن اللہ جانتا ہے ایسی ہی عینک میری نانی پہنا کرتی تھیں‘ میں نانی کی عینک کو بطور فیشن کیسے پہن لوں؟ آپ نے کبھی لال رنگ کی پینٹ پر گہرے پیلے رنگ کی شرٹ اور پائوں میں نیلے بوٹ دیکھے ہیں؟ کہتے ہیں یہ بھی فیشن ہے۔ میں نے ایک فیشن ایبل دوست سے پوچھا تھا کہ میرے لیے کوئی ہلکا پھلکا سا فیشن تجویز کرو۔ اس نے غور سے میرا جائزہ لیا اور کہنے لگا ”تم بال کھڑے کر لو‘‘۔ میرے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ کیوں‘ میں کوئی…‘‘ اس نے جلدی سے میری بات کاٹی ”یقین کرو‘ کچھ کچھ فیشن ایبل لگو گے‘ چھوڑو یہ ڈریس شرٹس اور فارمل ڈریسنگ‘ کچھ مختلف نظر آئو۔
میں ہونٹ سکیڑ کر سیلفی بھی بنانا چاہتا ہوں لیکن مجھ سے موبائل ہی ٹھیک سے نہیں پکڑا جاتا‘ پتا نہیں لوگ کیسے ایک ہاتھ سے موبائل سیدھا کرکے سیلفی بنا لیتے ہیں۔ میں نے تو جب بھی سیلفی بنانے کی کوشش کی موبائل پر نیا گلاس پروٹیکٹر لگوانا پڑا۔ میں جھینگے اور کیکڑے بھی کھانا چاہتا ہوں تاکہ شکل سے نہ سہی‘ کھانے سے ہی فیشن ایبل نظر آئوں لیکن پتا نہیں کیوں کسی چائنیز ریسٹورنٹ جاتے ہوئے راستے میں کسی چھوٹے سے ہوٹل پر دال ماش اور تندور کی تازہ روٹیاں دیکھتا ہوں تو غش پڑ جاتا ہے اور پھر میرے لیے آگے جانا مشکل ہو جاتا ہے۔
مردانہ کانوں میں بالی پہننا بھی فیشن ہے‘ بغیر جرابوں کے بوٹ پہننا بھی فیشن ہے‘ شرٹ کا اوپر سے دوسرا بٹن کھلا رکھنا بھی فیشن ہے حالانکہ پہلے یہ لفنگا پن کہلاتا تھا۔ کھانے پینے سے لے کر بول چال‘ گھرکی بناوٹ‘ چہرے کے تاثرات‘ بالوں کی تراش خراش تک ہر چیز فیشن کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک فیشن شو میں تو میں نے ایسے ماڈل لڑکوں کو بھی دیکھا جنہوں نے ”غرارے‘‘ پہن رکھے تھے۔ غرارے مجھے بھی پسند ہیں لیکن صرف گرم پانی کے۔ مجھے لگتا ہے میں کبھی فیشن ایبل نہیں بن سکوں گا‘ یہ دُکھ مجھے کھاتا جا رہا ہے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
span.s2 {font: 12.0px ‘.Apple Color Emoji UI’}