ریاض احمد صاحب کا اجتہاد اور اجماع کے دین کا ماخذ ہونے یا نہ ہونے سے مُتعلق سوال نہایت اہمیّت کا حامل ہے، لیکن اس کا جواب اس بات پر مُنحصر ہے سوال کرنے والے کے نزدیک دین کی تعریف کیا ہے. بدقسمتی سے مُسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک دین کا ماخذ صرف اللہ نہیں بلکہ غیراللہ بھی ہو سکتا ہے. تبھی اجماع اور اجتہاد کے نتیجے کو دین سمجھنے کی غلطی کرنا بہت عمُومی مُعاملہ بن چکا ہے.
دین کیا ہے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے پھر اجتہاد اور اجماع پر بات کرتے ہیں.
دیکھیے دین تو انسانوں کے لیے اللہ کی بھیجی ہُوئی ھدایت ہے. نبیؑ دین ایجاد نہیں کرتے اللہ کے دین کو لوگوں تک پُہنچاتے ہیں. دین صرف اللہ کا ہے اور اللہ نے ہی قرآن کی شکل میں آخری الہامی ھدایت کے ایسے بُنیادی اُصُول بھیج دیے جو قیامت تک کے ہر دور کے ہر مُعاشرے کے لیے یکساں رہیں گے.
اللہ کا حقیقی دین تو بس وہی ہے جو وحی کے ذریعے مُحمدؐ پر قُرآن کی شکل میں نازل ہُوا جو نہ بدل سکتا ہے نہ منسُوخ ہو سکتا ہے، نہ کبھی اُس کا کُچھ حصہ گُم ہُوا نہ بھُلایا گیا نہ بھُلایا جائے گا کیونکہ اللہ نے اس آخری الہامی پیغام کی حفاظت اور اسے مُجھ تک اور میرے بعد کے لوگوں تک پُہنچانے کا ذمّہ لیا تھا.
اس بات کی اہمیّت ہے ہی نہیں کہ اللہ کا قُرآن کس کس کے ذریعے مُجھ تک بحفاظت پُہنچا.
اہمیّت اس بات کی ہے کہ اسکا بحفاظت قیامت تک کے لوگوں تک پہنچنا اللہ کے وعدے کی تکمیل ہے. اللہ کے قُرآن کی حفاظت کے وعدے سے ایک سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اللہ نے بھی صرف قُرآن ہی کی حفاظت کا ذمّہ لیا، جواب منطقی اور سادہ ہے، یعنی اللہ کی نظر میں بھی دین صرف قُرآن ہی ہے. سُنّت قُرآن سے الگ کوئی عمل نہیں اللہ ہی کی ھدایت پر نبیؐ نے اس کلام کی ضروری تشریح اپنے عمل کی شکل میں مُعاشرے میں رائج کی. جس جس تک اللہ نے قُرآن پہنچایا اسکی تشریح یعنی رائج سُنّت کے ساتھ ہی پُہنچایا. کیونکہ سُنّت اور قُرآن دو نہیں ایک ہی ہیں کیونکہ انکا ماخذ الہامی ہے.
جیسے میں نے پہلے کہا کہ دین کا ماخذ فقط اللہ ہو سکتا ہے، نبیؐ کا قُرآن کی تشریح کے لیے جاری کیا گیا ہر عمل اللہ کی براہِ راست ہدایت اور رہنُمائی کے تحت ہی تو تھا. یعنی سُنّت کا ماخذ بھی نبیؐ نہیں بلواسطہ طور پر اللہ ہی ہیں.
اب ہم جانتے ہیں کہ زمانہ مُسلسل بدل رہا ہے، ویلُوز، نارمز یعنی رسُوم و رواج اور ثقافت کے بُنیادی پیرامیٹرز بدل رہے ہیں اور انسانوں کو ہر زمانے میں قُرآن کی بُنیادی مُعاملات میں ہدایت کےعلاوہ بدلتے زمانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ثانوی مُعاملات میں مُسلسل رہنُمائی بھی چاہیے. کیونکہ ہر آنے والا دور اپنے ساتھ کُچھ ایسے مُنفرد معاملات اور مسائل لے کر آتا ہے جسکا سو سال پہلے تصوُر بھی ممکن نہیں تھا.
ایسے میں ہی اجتہاد کی ضرُورت پیش آتی ہے.
آئیڈیل سیچوئیشن میں ہر مُسلمان قُرآن میں غوروفکر کر کے اُس کی وہ رُوح پا لے گا کہ اُسے ان ثانوی مُعاملات سے مُتعلق قُرآن کی رُوح سمجھ آنے لگے اور وہ ثانوی مُعاملات میں بھی قُرآن کی روح کو مدّنظر رکھے. تبھی اللہ سُورہ قصص میں قُرآن ہر مُسلمان پر فرض قرار دیتا ہے اور قُرآن میں سات سو چھپن بار غوروفکر کی طرف راغب کرتا ہے تاکہ قاری زندگی کے ہر مُعاملے میں اپنے روزمرّہ اعمال کی قُرآن کی رُوح سے مُطابقت کر لے.
غوروفکر کی دعوت اللہ کی طرف سے ہر ایک کو ہے اور غوروفکر ہی اجتہاد ہے.
لیکن چونکہ عقل والے اور عام لوگ ایک جیسے نہیں ہو سکتے اور ہر ایک اللہ کی دعوت قبُول نہیں کرتا لہٰذا عقل اور عوامی مرتبے والا مومن مُجتہد عام لوگوں کو قُرآن و سُنّت کے رہنُما اور یُونیورسل اُصُولوں کی روشنی میں اجتہاد یعنی غوروفکر کے بعد اپنے دور کے مُنفرد مسائل کا حل بتائے گا جو قُرآن و سنّت سے مُطابقت رکھنے کے باوجُود دین کا ماخذ قرار نہیں پا سکتا کیونکہ دین کا ماخذ تو صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے.
البتّہ یہ اجتہاد مُجتہد کی نیک نیّتی اور اپنی بُنیاد قُرآن و سُنّت ہونے کے باعث مُقدّس سمجھا جائے گا. اور مُجتہد کی رُعیّت کے لیے اُس اجتہاد کے نتیجے میں لیے گئے فیصلوں کو ماننا کارِ ثواب ہو گا. بشرطیکہ اُس دور کے دیگر مُجتہدین اُن فیصلوں کو خلافِ دین قرار نہ دیں.
مثال کے طور پر عُمرؓ کے دور میں ایک سال شدید قحط پڑا. اتنی غُربت بڑھی کے چوری عام ہو گئی کیونکہ لوگوں کے کمسن بچے بھی کئی کئی روز کے فاقے سے تھے. حضرت عُمرؓ نے نبیؐ سے سُن رکھا تھا کہ قریب ہے کہ غُربت کُفر تک لے جائے. تبھی حضرت عُمرؓ نے ایسے حالات میں چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنے کا اُصُول مُعطل کر دیا.
جب حجاز کے تجارتی مرکز بننے کے بعد اسلامی علاقوں میں پیسے کی ریل پیل ہونے کے باعث عارضی شادی کی اجازت کا ناجائز استعمال شُروع ہُوا اور مُتعہ اور زنا میں فرق کرنا مُشکل ہو گیا تو حضرت عمرؓ نے ہی مُتعہ اور اس قسم کی تمام عارضی شادیوں پر پابندی لگا دی.
مکّہ اور مدینہ پُورے خطّے سے آنے والے لاکھوں زائرین سے بھرا رہتا اُن میں ہر قسم کے لوگ ہوتےاور مساجد میں خواتین کے لیے جگہ نہ بچتی ،ایسے واقعات بھی ہُوئے کہ نمازِ فجر اور نمازِ عشاء کے لیے مسجد آنے والی خواتین سے راستے میں انجان لوگ چھیڑ چھاڑ کر کے ہجُوم میں غائب ہو جاتے، تو اُس وقت حضرت عُمرؓ نے ہی خواتین کو مسجد آنے سے روکنے کا حُکم جاری کیا.
حضرت عُمرؓ کے اجتہاد سے ایسے دس کام منسُوب ہیں جن کی حضرت مُحمدؐ اور حضرت ابُوبکّرؓ کے ادوار میں اجازت تھی لیکن حضرت عُمرؓ نے اپنے دور میں حالات کے پیشِ نظر اجتہاد کے بعد اُن پر پابندی لگا دی ، اور چُونکہ انکے اس اجتہاد کو اُس دور کے مُسلمانوں کی حمایت حاصل ہُوئی لہٰذا اُنکے اجتہاد کو اپنے دور کے اجماع کی حیثیّت حاصل ہو گئی اور یہ فیصلے اسلامی حکُومت کا قانُون بن گئے.
ایک خلیفہٴ وقت کے بنائے ہُوئے قانُون کی پاسداری خلیفہ کی رُعیّت پر لازم یعنی واجب ہے اس لیے حضرت عُمرؓ سے اختلاف کرنے والے صحابہؓ نے بھی ان فیصلوں کو مانا. اب حضرت عمرؓ کے بعد حضرت عُثمانؓ خلیفہ بنے تو اُنکے پاس بھی اجتہاد کا وہی اختیار تھا جو عُمرؓ کے پاس تھا لہٰذا اُنہوں نے حضرت عُمر کے دس بُنیادی فیصلوں میں سے دو کو بدل دیا جنکی تفصیل میں جانا مُناسب نہیں. کیونکہ میرا مقصد اُصُول سمجھانا ہے فرقہ ورانہ بحث نہیں.
حضرت علیؓ کا دور آیا تو اُنہوں نے حضرت عُمرؓ کے چھے مزید فیصلوں کو ریورس کر کے اُن مُعاملات میں وہی قانُون لاگُو کر دیا جو حضرت عمرؓ سے پہلے بھی موجود تھا. البتّہ جن ایریاز میں حضرت امیر مُعاویہؓ گورنر تھے وہاں کے لوگوں نے خلیفہ کا اجتہاد قبُول نہ کیا اور حضرت عُمرؓ کے فیصلے ہی اجماع کی شکل اختیار کیے رہے، حالانکہ حضرت علیؓ کے خلیفہ وقت ہونے کے باعث اُنکا اجتہاد مانا جانا اُس وقت کی انکی رعیّت پر لازم یعنی واجب تھا.
بعد کے ادوار میں عقل کی جگہ تقلید نے لے لی اور آدھے سے زیادہ مُسلمان حضرت عُمرؓ کے کیے ہُوئے اجتہادی فیصلوں پر کاربند رہے اور دیگر حضرت علیؓ کے کیے ہُوئے اجتہادی فیصلوں پر قائم رہے حالانکہ ان دونوں کے فیصلے صرف انہی دونوں کے ادوار کے حقائق اور مسائل کے ضمن میں تھے اگلے ادوار کے مسائل اور حقائق کا تو عُمرؓ اور علیؓ نے تصوُر بھی نہ کیا ہوگا نہ اگلا دور اُنکی ذمّہ داری تھا.
ان دونوں کا اجتہاد اپنے اپنے ادوار کے لیے تھا اور بعد کے ادوار میں بھی ان دو صحابہؓ کی طرز پر اجتہاد کا دروازہ کھُلا رہنا چاہیے تھا جو بعد والوں نے اندھی تقلید میں خُود ہی بند کیا. فقیہین نے بھی درحقیقت اپنا اجتہاد ان دو اصحابؓ کے اجتہاد میں سے ایک کو چُننے تک محدود رکھا اور مسلمانوں میں فرقے بن گئے.
سادہ سا اُصول سمجھ لیجیے کہ اجتہاد اور اجماع مخصُوص وقت کے لیے ہوتا ہے کیونکہ ہر نیا آنے والا دور حقائق اور مسائل بدل دیتا ہے. مُسلمانوں نے بہرحال اکابرین کے اجتہاد اور پچھلوں کے اجماع کو دین کا حصّہ سمجھ لیا اور جیسے جیسے دین کے ماخذ بڑھتے گئے فرقے بڑھتے گئے حالانکہ بات بہت سادہ تھی کہ دین تو بس قُرآن ہے اور سُنّت قُرآن کی تشریح ہے.
جیسے عُمرؓ اور علیؓ نے اپنے اپنے دور کے حُکمران ہوتے ہُوئے اجتہاد سے قُرآن کے بُنیادی اُصُولوں کے تحت اپنے دور کی مُناسبت سے ایک دُوسرے سے مُختلف قوانین اور آئین بنائے ایسے ہی ہر دور کی مُسلمان حکُومت کا فرض تھا کہ اپنے اپنے دور کے حقائق کے مُطابق اجتہاد کو قوانین بنانے میں استعمال کیا جاتا.
لیکن ایسا نہ ہو سکا کیونکہ مُسلمان پچھلوں کے اجتہاد پر اجماع کی تقلید کو جاری رکھے رہے حالانکہ اُس اجماع کا بیشتر حصّہ پچھلی کئی صدیوں سے ناقابلِ عمل ہے . صحابہؓ کا اجتہاد اور کسی بھی زمانے کا اجماع بس اُسی زمانے کے لیے ہے جو اُس دور کے لوگوں پر تو واجب تھا لیکن اگلے ادوار کے لوگوں کو اپنا اجتہاد خُود کرنا ہوگا. اُمید ہے میں آپکے سوال کا جواب دے پایا ہُوں.
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
span.s2 {font: 12.0px ‘.Arabic UI Text’}