269

اپنے رب سے کچھ باتیں۔

میں جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں اس کے ساتھ ہی کچھ Toilets بنے ہوئے ہیں… ان کی صفائی ستھرائی کے لئے ایک بوڑھے ہندو جمعدار کو رکھا گیا ہے… وہ بوڑھا دن میں دو سے تین بار مجھے مشکل میں ڈال دیتا ہے… میں جب بھی جاتا ہوں وہ بلند آواز میں مجھے سلام کرتا ہے..
“السلام علیکم “
میں جواب میں بجھے دل سے کبھی کبھی معض سر ہلاکے اور کبھی دبے الفاظ میں “وعلیکم” کہہ کے آگے بڑھ جاتا ہوں…میرا یہ عمل میری تربیت کے بھی خلاف ہے.. کیونکہ بچپن سے مجھے بتایا گیا تھا کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے.. اس کا حکم قرآن میں سورۃ النساء میں بھی آیا ہے اور اس کے علاوہ سلام کا جواب اس سے بہتر اور عمدہ طریقے سے دینا مستحب ہے.
اگر کوئی مسلمان مجھے “السلام علیکم” کہتا ہے تو میں جواب میں خوشی خوشی “وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ ” کہتا ہوں….
مگر یہاں معاملہ ہندو کا ہے…اور کہا یہ گیا ہے کہ غیر مسلم کے سلام کے جواب میں صرف “وعلیکم” کہو…
زیادہ تر میں کوشش کرتا ہوں کہ اس ہندو جمعدار کے سلام کرنے سے پہلے ہی اس سے اس کی طبیعت پوچھ لوں اور اسے سلام کرنے کا موقع نہ دوں…
” کیا حال ہیں چاچا! طبیعت تو ٹھیک ہے”
مگر وہ دور سے مجھے آتا دیکھ کے سلام میں پہل کرتا ہے… اور مجھے پریشان کردیتا ہے…مجھے اسے صرف “وعلیکم” کہتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے…. مجھے یوں لگتا ہے کہ میری طرف سے جیسے کوئی Discrimination ہورہی ہے… کوئی امتیاز برتا جارہا ہے….کبھی کبھی مجھے میرا یہ عمل قرآن کی بھی روح سے مختلف نظر آتا ہے…
مجھے قرآن کی وہ آیت بھی یاد آتی ہے…
هَلْ جَزَاءُ الْاحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانِO
’’کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ اور ہے‘‘
(سورۂ الرحمن)
لیکن کیا کیا جائے….میں اکثر دل میں دعا کرتا ہوں کہ آج وہ چاچا نہ ہو… مگر وہ مسلسل مجھے آزمانے کے لئے موجود ہوتا ہے…
میں اندھیری رات میں بستر میں لیٹے لیٹے جب اپنے رب سے باتیں کرتا ہوں تو کہتا ہوں..
“اے میرے رب! تو تو ان کو بھی دیتا ہے جو تجھے نہیں مانتے… اگر غلطی سے میرے منہ سے اس بوڑھے ہندو کی سلامتی کے لئے کوئی دعا نکل جاتی ہے…تو پھر بھی اس کی…اور میری… سلامتی تو تیرے ہی رحم و کرم پہ ہے…. تو جس طرح چاہے…. جو تیری مرضی ہو… مجھ سے یہ امتیاز نہیں ہو پارہا…. تو میری اس سوچ کو معاف کردے…اور مجھے کوئی راستہ سجھا…. یا میں اس طرف جانا ہی چھوڑ دوں”

اپنا تبصرہ بھیجیں