391

ڈالر اور پاکستانی روپے کے درمیان اتار چڑھاؤ

اکثر اوقات ان باتوں کا اندازہ آپ کو اُس وقت ہوتا ہے جب آپ گاڑی میں ایندھن ڈلوانے کسی پیٹرول پمپ یا گیس اسٹیشن پہنچتے ہیں، یا پھر اشیائے خورد و نوش کی خریداری کے لیے کسی سپر مارکیٹ میں جاتے ہیں ۔ فیول اور فوڈ، یعنی ایندھن اور غذا انتہائی بنیادی اشیائے ضروریہ ہیں اور ان کی قیمت کتنی ہی بڑھ جائے، مارکیٹ میں ان کی طلب کبھی کم نہیں ہوتی۔

لیکن جیسے ہی آپ کو محسوس ہو کہ پیٹرول، گیس اور خوراک کی قیمت بڑھ گئی ہے، تو سمجھ جائیے کہ روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہوئی ہے۔ دراصل کسی بھی ملک کے فارن ایکسچینج ریزروز، یعنی زرِ مبادلہ کے ذخائر، سونے یا ڈالر کی شکل میں ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹس میں بھی لگ بھگ 62 فیصد خرید و فروخت اسی کرنسی میں ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر ملک کو اپنے خزانے میں اتنے ڈالرز رکھنے ہوتے ہیں جتنے درآمدات اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے ضروری ہوں۔

کسی بھی ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر سونے یا ڈالر کی شکل میں ہوتے ہیں، یہ توازن برآمدات سے حاصل آمدنی، محصولات، دیگر ممالک کے ساتھ باہمی تجارت، غیر ملکی سرمایہ کاری وغیرہ کی صورت میں قائم رہتا ہے۔ تاہم اگر کسی بھی وجہ سے یہ توازن بگڑتا ہے تو خزانے سے ڈالر کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور مقامی کرنسی کی قیمت گرا کر اس عدم توازن کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے، تو خزانے سے ڈالر کم ہونے اور مقامی کرنسی کی قدر گرنے کا نتیجہ مہنگائی کی صورت میں نکلتا ہے۔

عام خیال یہ ہے کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر میں اضافے اور اس کی اوپن مارکیٹ میں عدم دستیابی کا براہِ راست تعلق بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے حصول کے لیے حال ہی میں طے پانے والے معاہدے سے ہے۔ تاہم چند ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر کئی عوامل بھی روپے کی قدر میں حالیہ کمی اور ڈالر کی قیمت اور مانگ میں اضافے کا باعث ہیں۔ ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف سے ہونے والے حالیہ معاہدے کے علاوہ دیگر کئی عوامل بھی روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

ہم آپ کو بتائیں گے کہ وہ عوامل کیا ہیں، لیکن اس سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ آخر یہ ڈالر اور روپے کا کھیل ہے کیا؟ ڈالر کی قدر طے کیسے کی جاتی ہے؟ کسی بھی کرنسی کی قدر اس کی رسد اور طلب پر منحصر ہوتی ہے۔ جب کسی کرنسی کی رسد میں کمی واقع ہوتی ہے اور طلب میں اضافہ تو اس کی قدر یا قیمت بڑھ جاتی ہے۔

یہی صورتحال ڈالر کی بھی ہے۔ ڈالر کی قدر کا تعین کرنے کے تین طریقے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ غیر ملکی کرنسیز میں ڈالر کتنا خریدا جا سکتا ہے۔ اسی کا نام ایکسچینج ریٹ بھی ہے۔ فارن ایکسچینج مارکیٹ میں فوریکس ٹریڈرز اس ریٹ کا تعین کرتے ہیں۔ وہ طلب اور رسد کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر ریٹ متعین کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سارا سارا دن ڈالر کی قدر میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے۔

دوسرا طریقہ ٹریژری بانڈز کی قیمت کا ہے، جنھیں باآسانی ڈالر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ جب ٹریژری بانڈز کی طلب بڑھے گی تو ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو جائے گا۔ تیسرا اہم طریقہ فارن ایکسچینج ریزروز کے ذریعے قیمت کا اندازہ لگانا ہے۔ یعنی غیرملکی حکومت نے کتنے ڈالر اپنے پاس محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔

گویا یہ کہ اگر سٹیٹ بینک کے پاس بڑی تعداد میں ڈالر ہوں لیکن وہ زر مبادلہ کے ذخائر بچانے کے لیے اسے مارکیٹ میں ریلیز نہ کریں تو ان کی رسد کم ہو گی اور اس عمل سے امریکی ڈالر کی قدر یعنی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا۔

گذشتہ دو روز میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ’آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے لیے سٹیٹ بینک نے اپنے فارن ریزروز بڑھانے کے لیے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدا ہو، جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں اس کی طلب میں اضافہ اور رسد میں کمی کی وجہ سے قیمت میں اضافہ ہوا ہو۔‘

دوسری وجہ ’سپیکیولیٹو بائینگ‘ (Speculative Buying) بھی ہو سکتی ہے۔ آج کل ایسی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ روپے کی قیمت مزید گرے گی اور اس کی وجہ بھی آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والا ابتدائی معاہدہ ہی ہے، کیونکہ آئی ایم ایف سے قرضہ کن شرائط پر لیا جا رہا ہے، یہ واضح نہیں۔اور نہ ہی ابھی تک کسی کا بیان آیا ہے۔

اس لیے ڈالر کے خریدار تذبذب کا شکار ہیں کہ آیا روپے کی قیمت مزید گرے گی یا مستحکم ہو گی، سو وہ اس خوف میں ڈالر زیادہ تعداد میں خرید رہے ہیں۔ اس عمل سے مارکیٹ میں ڈالر کم ہو رہا ہے اور ایک قسم کی ذخیرہ اندوزی کا خدشہ ہے۔

لیکن کیا منی چینجرز واقعی کوئی کردار ادا کر رہے ہیں؟

’پاکستان میں بعض اوقات کئی بڑے منی چینجرز بھی ڈالر کی مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں۔ مصنوعی قلت پیدا ہوتے ہی چونکہ رسد میں کمی اور طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے، اس لیے ڈالر مہنگا ہو جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہو جاتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس وقت محض افواہوں کا عمل دخل زیادہ ہے۔‘

فوریکس میں مصنوعی قلت پیدا کرنی ہو تو عموماً ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے اور ایسی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں کہ روپے کی قیمت کئی فیصد تک گر جائے گی، جس کے بعد خریدار کوشش کرتا ہے کہ وہ ایسا ہونے سے پہلے ہی زیادہ سے زیادہ ڈالر خرید لے۔

اس سے طلب رسد میں فرق آتے ہی ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور روپے کی قیمت گر جاتی ہے، لیکن ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ اس نظریے سے سخت اختلاف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ منی ایکسچینرز پر ایک بڑا الزام ہے اور دراصل حکومتی پالیسیوں کی ناکامی چھپانے کی ایک کوشش ہے۔

’یہ حکومت کی ناکامی ہے، سٹیٹ بینک اور ایف آئی اے کو اس قدر پورے عمل میں داخل کر دیا گیا ہے کہ اب خریدار ہمارے پاس آنے سے کتراتے ہیں، وہ اب گرے مارکیٹ میں جا رہا ہے۔‘’پاکستان میں اب ڈالر کی خرید و فروخت کی قانونی مارکیٹ سے زیادہ بڑا سائز اس کی گرے یا بلیک مارکیٹ کا ہے۔‘

وہ اس کی وجہ سخت حکومتی اقدامات بتاتے ہیں۔ ‘ایسا لگتا ہے کہ حکومت اب خود ہُنڈی اور حوالہ کو فروغ دے رہی ہے۔ خریدار ہم سے دُور ہو گیا ہے۔ جب اسے بلاوجہ کے سوال و جواب کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ ڈالر خریدنے ہمارے پاس کیوں آئے گا۔ جب یہ خرید و فروخت ہمارے پاس نہیں ہو گی تو فارن ریزروز تو متاثر ہوں گے۔‘

پاکستان میں ’ڈالر مافیا نہایت مضبوط ہے اور یہ ڈالر کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، تاکہ روپے کی قدر میں کمی ہو، خریدار، خاص طور پر امپورٹرز مہنگے داموں ڈالر خریدیں۔‘اب دیکھا جائے تو پھر متاثر کون ہو رہا ہے؟ ظاہر ہے متاثر تو عوام ہی ہوں گے! ڈالر کی قیمت میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے کوئی ایک نہیں ہر طبقہ متاثر ہو گا۔

’ایک تو امپورٹرز ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی درآمدات کی شرح برآمدات سے زیادہ ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے سے یہ مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ امپورٹرز کو اب زیادہ مہنگا ڈالر خریدنا پڑے گا، اور کسٹمر تک یہ اشیا مہنگے داموں پہنچیں گی۔ یہاں تک کہ ملک میں تیار ہونے والی اشیا بھی بہت مہنگی کر دی جاتی ہیں، کبھی خام مال کے نام پر اور کبھی یونہی سب کی دیکھا دیکھی۔ اس لیے ڈالر جتنا مہنگا ہوگا، پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔‘

دوسری جانب ’اگر تو یہ سب افواہوں کی بدولت ہے یا سپیکیولیشن کے باعث خریداری میں اضافہ یا مصنوعی قلت ہے تو پھر چند ہی دنوں میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن اگرڈالر کی قدر میں یہ اضافہ طویل المدتی ہے تو پھر اسکےخوفناک اثرات سامنے آئیں گے۔

ڈالر کی قیمت میں اضافے سے جو طبقہ فوری طور پر متاثر ہوتا ہے وہ اپر اور مڈل کلاس ہے۔’یعنی وہ لوگ جو امپورٹڈ اشیا کا استعمال کرتے ہیں۔ ان اشیا کی برآمد اب مہنگی ہو جائے گی اور یوں ان کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ اس کا سب سے زیادہ اثر پٹرولیم مصنوعات کی برآمدات پر بھی پڑتا ہے، یہ مصنوعات مہنگی ہو جاتی ہیں اور یوں ان سے جڑی روزانہ استعمال کی تمام ضروری اشیا بھی۔‘

سو اب دیکھتے ہیں ڈالر، روپے کے اتار چڑھاؤ اور آئی ایم ایف کے قرضوں کے بعد پاکستان میں مہنگائی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں