Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
358

دوبئی کی سیر۔ حصہ اوّل

دوبئی بین الاقوامی اہمیت کا حامل شہر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنی مثال آپ بھی ہے۔ دنیا میں کوئی کہیں بھی رہتا ہو دوبئی کا نام سن کر اسکے منہ میں پانی آ ہی جاتا ہے۔ سیروسیاحت کا شوق ہونے کی وجہ سے کافی عرصے سے دوبئی کی سیر کا پروگرام بن رہا تھا مگر اس میں تیزی اس وقت آئی جب بچوں نے ضد کی کہ اس دفعہ سردیوں کی چھٹیوں میں دوبئی کی سیر کرنی ہی ہے تو معاملہ حساس نوعیت اختیار کر گیا اور ٹکٹ اور ہوٹل بک کرنے میں ہی عافیت جانی۔

ہوٹل اور ائر ٹکٹ اپنے بجٹ کو سامنے رکھتے ہوئے اس طریقے سے خریدے گئے کہ دوبئی میں ساری جگہوں تک رسائی بھی ہوجائے اور بجٹ بھی ڈسٹرب نہ ہو۔ ایسے میں نارویجین ائرلائنز کا انتخاب کیا گیا جو سٹاک ہوم سے ڈائریکٹ دوبئی جاتی ہے اور اسکی ٹکٹ بھی اکنومیکل ہوتی ہے۔

ہوٹل کے سٹارز بھی پانچ سے تین تک کردئیے تاکہ چھ افراد کی فیملی کیساتھ آسانی سے تمام اخراجات برداشت کیے جائیں۔ جو لوگ یورپین ائرلائنز میں سفر کرتے رہتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان ائرلائنز میں کھانے اور پینے کو مفت میں کچھ نہیں دیا جاتا بلکہ پانی بھی پیسوں کا خریدا جاتا ہے، اسی لئے انکو کو بجٹ ائرلائنز بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ انکی ٹکٹس باقی ائرلائنز سے نسبتاً سستی ہوتی ہیں۔

چھ گھنٹے سے زائد سٹاک ہوم سے دوبئی ڈائریکٹ فلائیٹ میں کھانے کا مسئلہ بیگم نے درجن سے زیادہ شوارمے بنا کر اور ساتھ چپس اور فروٹ رکھ کر حل کر دیا۔ جہاز پر سوار ہوتے ہی بچوں نے پہلی شکایت سیٹ کے ساتھ ٹی وی سکرین نہ ہونے کی کردی، جسکا متبادل موبائیل فون اور ٹیبلٹس کا استعمال کر کے کیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد چھت سے ٹیبلٹ نما کچھ ڈیوائسز بھی نمودار ہو گئیں جن پر انگلش ڈرامے لگا دئیے گئے۔

چھ گھنٹے کا سفر خوشگوار گزرا اور جہاز دوبئی شریف بحفاظت لینڈ کر گیا۔ دوبئی کیساتھ شریف اس لئے لگایا ہے کیونکہ پاکستان کے موجودہ حالات کی وجہ سے ہر چیز کے ساتھ شریف لگانے کی عادت سی ہوگئی ہے، کیونکہ پاکستان شریف بھی جانا ہی ہے اور بحفاظت واپسی کیلئے ہر چیز کیساتھ شریف لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

عربوں کے بارے میں یہ مشہور ہے اور پچھلی دفعہ جدہ آئرپورٹ پر اسکا پریکٹیکلی اندازہ بھی ہوگیا تھا کہ یہ امیگریشن کاؤنٹر پر فضول میں دیر لگاتے ہیں لحاظہ اس بارے میں ذہنی طور پر تیاری تھی مگر یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ہمیں باعزت طریقے سے فیملی ساتھ ہونے کی وجہ سے ایک خالی کاؤنٹر کی طرف بھیج دیا گیا جہاں بییٹھے ایک صاحب نے ہمیں صرف دو منٹ میں ہی دخول کی سٹیمپ لگا کر فارغ کر دیا۔ خیر خوشی خوشی باہر آئے اور اپنا سامان ڈھونڈ کر دو تین ٹرالیوں پر رکھا۔ لوگ بارہ تیرہ سوٹ کیسز دیکھ کر حیران ہورہے تھے مگر انہیں کیا پتا کہ چھ افراد کی فیملی کے ساتھ کچھ دن بعد پاکستان شریف کا سفر بھی کرنا ہے۔

دوبئی میں ٹیکسی سسٹم بہت اچھا ہے اور پچیس درھم سے میٹر سٹارٹ ہوتا ہے اور بعد میں اندازً ڈیڑھ درھم فی کلومیٹر چارج کیا جاتا ہے اور ڈرائیور سے تو تو میں میں کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ سامان اور افراد زیادہ ہونے کی وجہ سے دو ٹیکسیاں کروائی گئیں جنمیں ایک ٹیکسی کی ڈرائیور لاھور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون تھیں۔ ٹیکسی سسٹم اچھا اور سستا ہونے کی وجہ سے کچھ دلی اطمینان محسوس ہوا اور خاتون ڈرائیور کو دیکھ کر یہاں کے امن اور پرسکون حالات پر یقین مزید پختہ ہوگیا۔

کلاک ٹاور کے نزدیک ہوٹل ایک خوبصورت جگہ پر واقع تھا جہاں دروازے پر ایک انتہائی چھوٹے قد کا آدمی خوبصورت لباس اور پگڑی پہنے استقبال کیلئے موجود تھا۔ ہوٹل کے ملازمین نے انتہائی سرعت کیساتھ سامان گاڑیوں سے نکال کر لابی میں شفٹ کیا اور ریسیپشن پر موجود شخصیت نے ہمارے چہرے اور لباس کو دیکھ کر اردو میں ویلکم کہا اور بکنگ نمبر مانگا۔ بکنگ کا کاغذ دیکھ کر ہمیں یہ خوشخبری سنائی گئی جو کہ حقیقت میں ہمارے لئے بدخبری تھی کہ آپکی بکنگ تو آج کی ہی ہے مگر قوانین کے مطابق آپ دوپہر دو بجے چیک ان کر سکتے ہیں اور اب رات کے دو بجے ہیں لحاظہ ان بارہ گھنٹوں کیلئے آپکو ایک رات کا ایکسٹرا کرایہ دینا پڑے گا۔ طویل فلائیٹ کی تھکن اور آدھی سے زیادہ رات گزر جانے اور بچوں کیساتھ کی وجہ سے یہ ٹیکا خوشدلی سے برداشت کرنا پڑا اور ڈبل روم سویٹ کی پےمنٹ کردی۔

حیرانی اس وقت ہوئی جب ریسپشن والے نے ہمارے پاسپورٹ اپنے پاس رکھنے کا کہا۔ پاسپورٹ ہر بندے کی ذاتی ملکیت ہوتے ہیں اور دوسرے ممالک میں یہ شناخت کی نشانی ہوتے ہیں، مگر عربیوں کو شاید پاسپورٹس پاس رکھنے کی عادت ہوئی ہوتی ہے اسلئے انہوں نے ہم سے بھی پاسپورٹس لے لئے۔ احتجاج کرنے پر انہوں نے اپنا دراز کھول کر لوگوں کے رکھے ہوئے درجنوں پاسپورٹس دکھا دئیے۔ سویڈش پاسپورٹس دیکھ کر ہمیں اگلے دن صبح واپس کرنے کی یقین دھانی کروا دی گئی۔ اللہ اللہ کر کے اپنے کمروں میں پہنچے جہاں ملازمین نے ہمارے درجن بھر سوٹ کیسز پہلے ہی پہنچا دئیے تھے اور ٹپ کا انتظار کر رہے تھے۔ دو کمروں والا سویٹ بہت خوبصورتی کیساتھ سجایا گیا تھا، جسے دیکھ کر کافی حد تک تھکن دور ہوگئی اور اگلے دن کی پلاننگ ذہن میں لئے نیند کی وادی میں کھو گئے۔

(جاری ہے)

2 تبصرے “دوبئی کی سیر۔ حصہ اوّل

اپنا تبصرہ بھیجیں