صبح آٹھ بجے موبائل کا الارم ہتھوڑے کی طرح دماغ پر برس رہا تھا۔ آنکھ کھلنے کا نام نہ لے رہی تھی، مگر مجبوری تھی کیونکہ گزشتہ رات سوتے سوتے تین بج گئے تھے اور ہوٹل انتظامیہ نے بوفے بریک فاسٹ کا وقت سات سے دس بجے مقرر کیا تھا، چنانچہ لیٹ اٹھنے کی صورت میں ایک اچھے ناشتے سے محروم ہونا پڑنا تھا۔
چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھتے اُٹھاتے ساڑھے آٹھ ہوگئے اور بچوں کو تیار کر کے نو بجے کے لگ بھگ ناشتے ھال میں پہنچ ہی گئے۔ ناشتہ کافی اہتمام سے تیار کیا گیا تھا، اسلئے ایک گھنٹہ گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر پہلے دن کی سیر کا پروگرام بنایا۔ پروگرام کیا تھا بس برج خلیفہ دماغ پر سوار تھا۔ بندہ دوبئی آئے اور برج خلیفہ نہ دیکھے ممکن نہیں ہے۔ اب جبکہ دوبئی پہنچ چکے تھے اور برج خلیفہ زیادہ دور بھی نہیں تھا تو سیر کا پہلا حدف برج خلیفہ ہی مقرر ہوا۔
ہوٹل انتظامیہ سے دوبئی کی موبائل سم خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تو پتا چلا کہ پچاس درھم کی ڈو کمپنی کی سم ہے اور 150 ایم بی انٹرنیٹ تیس درھم کا آئے گا۔ اتنی مقدار میں انٹرنیٹ ایک مذاق سے کم نہ تھا کیونکہ سویڈن میں ہر مہینے 16 جی بی 4G انٹرنیٹ مل جاتا تھا۔ آخر کار اپنی سویڈش سم سے ہی انٹرنیٹ استعمال کرنے میں عافیت جانی اور 200 ایم انٹرنیٹ دوبئی کے ریٹ سے آدھے پیسوں میں حاصل کر لیا تاکہ برج خلیفہ پر اپنا فیس بک چیک اِن کیا جا سکے۔
دوبئی کی میٹرو کی تعریف سن رکھی تھی اس لئے میٹرو پر ہی جانے کا فیصلہ ہوا۔ میٹرو اسٹیشن الرقہ اپنے ہوٹل کے پاس ہی تھا اسلئے وہاں سے پورے دن کیلئے چھ افراد کے ٹکٹ پاس حاصل کئے اور ٹرینوں کے نقشہ پر ایک اُچٹتی نظر ڈال کر پلیٹ فارم کی طرف روانہ ہوگئے۔ ٹرین کو آتا دیکھ کر فوراً سوار ہوگئے۔ ٹرین نئی اور خوبصورت تھی اور بغیر کسی جھٹکے سے چل رہی تھی۔ ابھی ٹرین کے سحر میں ہی گرفتار تھے اور دو تین اسٹیشن ہی گزرے تھے کہ نقشہ غور سے دیکھنے پر پتا چلا کہ ٹرین تو مخالف سمت یعنی راشدیہ کی طرف جارہی ہے اور ہم برج خلیفہ سے مزید دور ہورہے ہیں۔ فوراً ٹرین سے اترے اور پلیٹ فارم تبدیل کیا۔ اس دفعہ دوبئی ایکسچینج والی ٹرین لی اور ٹرین میں لگے نقشہ کو بغور دیکھ لیا تاکہ غلطی کا چانس نہ رہے۔
چار پانچ اسٹیشن گزرنے کے بعد جب مسافروں کا رش کافی بڑھ گیا تو کسی خاتون نے یاد کروایا کہ یہ عورتوں کے لئے مخصوص ڈبہ ہے۔ دیواروں اور فرش پر ایک لائن لگا کر اسکی نشان دہی بھی کی گئی تھی۔ تھوڑی شرمندگی کیساتھ معذرت کرتے ہوئے بیگم بچوں کو چھوڑ کر ساتھ والے ڈبے کی طرف منتقل ہونا پڑا۔ اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے عورتوں اور چھوٹے بچوں کیلئے علیحدہ جگہ مخصوص کی گئی تھی۔ ایسا یورپ امریکہ میں سوچا نہیں جاسکتا، لیکن ہمارے کلچر کے لحاظ سے یہ ایک اچھی چیز ہے اور زیادہ رش کی صورت میں خواتین محفوظ بھی رہتی ہیں۔
انہیں سوچوں میں گم دوبئی مال کا اسٹیشن آ گیا۔ اسٹیشن کے اعلان کے ساتھ برج خلیفہ کا نام مبارک لیا گیا تو فوراً کان کھڑے ہوگئے کہ ہم نے بھی یہاں ہی اترنا ہے۔ دوبئی مال میٹرو اسٹیشن سے کوئی ایک کلومیٹر ہٹ کر واقعُ ہے اور یہ سارا راستہ بلڈنگ کے اندر پیدل ہی چلنا پڑتا ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بجلی سے چلنے والے افقی اسکلیٹرز لگائے گئے ہیں مگر انکی رفتار بہت سست ہے اور انکے باوجود بھی پیدل ہی چلنا پڑتا ہے۔ دس پندرہ منٹ کی واک کے بعد دوبئی مالُ آگیا۔
یہاں چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھی اسلئے چھوٹی موٹی چیزوں کے علاوہ کسی بڑی شاپنگ سے گریز ہی کیا گیا۔ کے ایف سی سے لنچ کے بعد اصل منزل برج خلیفہ کی طرف جانے کا پروگرام بنایا۔ دوبئی مال کے ساتھ ہی دوسری طرف برج خلیفہ شریف واقع ہے۔
برج خلیفہ 830 میٹر اُونچا ہے اور اسکی 163 منزلیں ہیں جن میں 154 قابل استعمال ہیں۔ 165 درھم کی ٹکٹ میں 125 منزل تک لے کر جاتے ہیں اور 500 درھم کی ٹکٹ میں 154 منزل تک لے کر جاتے ہیں۔ برج خلیفہ اس وقت دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہے اور یہاں سے سارا دوبئی اور اردگرد کا سمندر نظر آتا ہے۔ اوپر کافی تعداد میں دوربینیں لگی ہوئی ہیں جہاں سے لوگ دور دور تک نظارہ کرتے ہیں۔ یہاں ایک مسحورکن لطف محسوس ہوتا ہے جب بندہ یہ سوچتا ہے کہ وہ اس وقت زمین پر سب سے اونچا کھڑا ہے۔
شام کے وقت وقفے وقفے سے برج خلیفہ کے اردگرد پانی اور روشنیوں کے فوارے چلائے جاتے ہیں اور اونچی آواز میں عربی موسیقی چلائی جاتی ہے اور ہزاروں لوگ اس نظارے کو دیکھنے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ ان خوبصورت مناظر کی ویڈیوز اور تصاویر کی شکل میں عکس بندی کی گئی تاکہ یہ نشانی رہے کہ ہم نے کبھی برج خلیفہ دیکھا تھا۔
یہاں کی گہما گہمی میں وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور رات کے گیارہ بجنے والے ہوگئے۔ تین سالہ چھوٹا بیٹا فائق تھک کر ہاتھوں میں ہی سو چکا تھا اور برج خلیفہ سے میٹرو اسٹیشن کا ڈیرھ کلومیٹر اسے اٹھا کر پیدل سفر میری آنکھوں کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں تھا، کیونکہ ایسے موقعوں پر خواتین کے ہاتھوں میں ہلکی پھلکی تکالیف پتا نہیں کیوں ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
2 تبصرے “دوبئی کی سیر۔ حصہ دوم”