عہدہ و منصب کا اپنا ایک حسن بھی ہوتا ہے اور رعب و داب بھی، اس کے دوررس نتائج بھی ہوتے ہیں اور گہرے اثرات بھی۔ زبان و قلم سے ادا ہونے والے الفاظ کی قبولیت بھی بلحاظ عہد و منصب ہی تسلیم کی جاتی ہے، بڑوں کے الفاظ میں اتنی طاقت اور قوت ہوتی ہے کہ کئی چھوٹوں کو قدآور بنا دیتے اور کئی قدآوروں کو بَونا کردیتے ہیں، بڑوں کے بول ، اقوال زریں اور ان کے مزاج عوامی عادات کا روپ دھار لیتے ہیں، گزشتہ دنوں صدر مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی نے بیان جاری کیا کہ انہوں نے سال 2019ء میں 35 کتب پڑھی ہیں جن کی اوسط تین کتب ہر ماہ بنتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دن بھر کی مصروفیت سے تھک ہار کر جب گھر آتے ہیں تو ذہنی سکون کے لیے کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔
جناب صدر کے اس بیان اور عادت حسنہ کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کا یہ بیان معاشرے میں علم اور کتاب کے فروغ کا باعث بنے گا۔ اس قدر مصروف انسان کا مطالعہ کے لیے وقت نکالنے کا قوم کے نام یہ پیغام فروغ کتاب کے لیے یقینا سنگ میل ثابت ہوگا۔ ان کی علم دوستی کتاب سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر سے استوار کرنے میں نہ صرف معاون ثابت ہوگی بلکہ ان کے لیے صدقہ جاریہ بھی بنے گی ۔ صدر صاحب نے اپنی پسندیدہ کتب کا ذکر بھی کیا جو کتابیں ان کے زیر مطالعہ رہیں، ان میں سے چند ایک کے نام بھی بتائے، جن میں سر فہرست قرآن مجید اور سیرۃالنبیؐ ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس بیان سے تلاوت قرآن اور مطالعہ سیرت کی طرف بھی معاشرتی رجحان بڑھے گا۔
اس کے ساتھ ہی خوگر حمد کا ایک چھوٹا سا شکوہ بھی ہے کہ جناب صدر نے جن کتب کے نام بتائے ان میں سوائے چند ایک کے اکثر مغربی اور غیر مسلم مصنفین کی ہیں۔اللہ نہ کرے جناب صدر کی پسندیدہ کتب کی نشاندہی سے متاثر ہوکر اگر کسی کا رجحان غیر مسلم فکر کی طرف رخ اختیار کر لیتا ہے اور اس کے نتیجے میں دین سے دوری اور گمراہی در آتی ہے تو اس بھٹکاؤ کا بوجھ کہیں ان کے کندھوں پر نہ آن پڑے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جدید ایجادات ہوں یا فکری پرواز کے مظاہر اس کے پیچھے ہمیشہ مسلم مفکرین ہی دکھائی دیتے ہیں۔ طرز بودو باش ہو یا تعلیم و ہنر ،اس کے موجد اور فروغ دینے میں مسلم مشاہیر کی صلاحیتیں اور محنتیں ہی کار فرما ہیں۔امریکہ ،یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی اور ترقی کے پیچھے اسی برصغیر کے ہی دماغ دکھائی دیتے ہیں۔وہ لوگ سکالر شپ کے نام پر ہمارے تعلیمی اداروں سے ذہین طلبہ منتخب کرکے ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ان کی ساری چکا چوند آج بھی مسلمان ذہنوں کی مرہون منت ہے ، ان کے ہر کامیاب ادارے میں بنیادی کردار ادا کرتے اسی خطے کے نوجوان دکھائی دیتے ہیں۔ اگر بات صرف کتابوں تک ہی رہے تو یورپ کے کتب خانوں میں پڑی کتابیں یا تو مسلمانوں کی کتب کے تراجم ہیں یا یہ مسلمان مصنفین کی فکر سے مستعار …اس میں برصغیرکے مسلمان مصنفین اور ماہرین علم وفن کا بڑا حصہ ہے۔ یہی وہ کتابیں ہیں جنہیں یورپ میں دیکھ کر حضرت اقبالؓ نے رنجیدہ ہوکر کہا تھا:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
کاش! صدر مملکت اپنے بیان میں مسلمان اہل قلم کی تصنیفات کا ذکر کرتے جو یقینا مسلم فکر کے لیے باعث فروغ ہوتا۔ وہ مفسرین قرآن کا ذکرکرتے، شارحین حدیث کا نام لیتے ، مؤرخین کا تذکرہ ہوتا،مسلمان ادیبوں کے نام گنواتے،ایک سے بڑھ کر ایک صاحب بصیرت اور ماہر علم وفن برصغیر کی دھرتی میں قدرت کا عطیہ ہے۔
بہرحال صدر صاحب کے اس بیان میں ہمارے لیے پیغام یہی ہے کہ آپ جتنے بھی مصروف ہوں کتاب کے لیے وقت ضرور نکالیے۔کتاب انیس تنہائی بھی ہے اور بہترین رہنمابھی۔ سوشل میڈیا کا بے جا استعمال نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ ذہنوں کو پراگندہ کرنے کا باعث بھی ہے لہٰذا زیادہ نہ سہی ہر ماہ ایک کتاب ضرور پڑھیں۔ گھر میں رکھیں، اہل خانہ کو مطالعہ کی ترغیب دیں،جہاں بیٹھیں اپنی مجلسوں میں بہانے بہانے سے دوستوں کو توجہ دلائیں۔ اپنے ہر ماہ کے گھریلو بجٹ میں ایک کتاب بھی شامل کریں۔ یہ کوشش جہاں فروغ علم کا باعث ہوگی وہاں کئی قباحتوں سے بچاؤاور آپ کے لیے باعث ثواب بھی ہوگی۔ ان شاء اللہ
خوش آئند یہ ہے کہ امسال ایکسپو سنٹر میں سجنے والا کتاب میلہ انتہائی پر رونق دکھائی دیا ۔ ہزاروں کی تعداد میں شائقین کتاب نے وہاں کا رخ کیا اور ایک سے بڑھ کر ایک خوبصور کتاب دیکھ دیکھ کر خریدتے اور لطف اندوز ہوتے رہے۔مشاہدے میں یہاں تک آیا کہ بعض سٹالوں پر رکھی تمام کتب فروخت ہوگئیں اور طلب گار ابھی باقی تھے۔مصنفین، شعراء اورقلم سے وابستہ ہر شعبے کی نامور شخصیات نے اس کتاب میلے کو رونق بخشی اور وہ اپنے لفظوں کے لگتے دام دیکھ کر من ہی من میں فرحت ولذت محسوس کرتے رہے،یہ مناظر یقینا ان کے لیے حوصلہ افزاء تھے۔ اللہ کرے پھر سے ذوق کتاب فروغ پائے، کتاب سے ٹوٹتے تعلق میں استواری آئے،کتب خانوں کے گلشن آباد ہوں اور ہر سو کتابوں کی بھینی خوشبو بکھر بکھرجائے۔آمین