عمران تھانے سے واپس آیا‘ نیند کی گولیاں کھائیں اور بے ہوش ہو گیا‘ گھر والے اسے 20 اور 21 جنوری کی درمیانی رات ہسپتال لے گئے‘ اس کا معدہ صاف کر دیا گیا‘ یہ خبر زینب کے ماموں عمران انصاری تک پہنچی تو ان کا رہا سہا شک بھی دور ہوگیا‘ یہ جان گئے عمران علی سو فیصد مجرم ہے‘ عمران علی کا ڈی این اے سیمپل لاہور پہنچا اور یہ سیمپل بھی دوسرے نمونوں کے ساتھ قطار میں لگا دیا گیا۔
عمران انصاری کے بقول ”میں نے 22 جنوری کی صبح عمران علی کو دیکھا‘یہ اپنی ماں کے ساتھ ڈاکٹر کے کلینک سے واپس آ رہا تھا‘ وہ شکل سے بیمار اور کمزور دکھائی دے رہا تھا‘ وہ مجھ سے آنکھیں بھی چار نہیں کر رہا تھا‘ میں نے اس کی ماں کا حال احوال پوچھا اور آگے نکل گیا‘ 22 جنوری کی رات ڈی پی او فورس کے ساتھ آیا اور پولیس عمران علی کو گھر سے گرفتار کر کے لے گئی‘ پولیس نے مجھے رات ساڑھے دس بجے فون کیا اور مجھے امین بھائی کے ساتھ صبح آر پی او آفس بلا لیا‘ ہم 23 جنوری کی صبح ساڑھے نو بجے آر پی او آفس پہنچ گئے‘ ہمیں آر پی او ذوالفقار حمیدنے بتایا ہم مجرم کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
میں نے انہیں اپنے فون پر عمران علی کی وہ تصاویر دکھائیں جو میں نے 14 جنوری کی دوپہر اپنے گھر میں لی تھیں‘ میں نے یہ تصویریں دکھا کر پوچھا ”سر کیا یہ وہ مجرم ہے“ آر پی او نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن انہوں نے مجھے کہا ”آپ یہ تصویریں مجھے واٹس ایپ کر دیں“ میں نے اسی وقت وہ تصویریں واٹس ایپ کر دیں اور یہ تصویریں ہمارے بیٹھے بیٹھے میڈیا پر دکھائی دینے لگیں (عمران انصاری نے مجھے آر پی او کو بھجوائے گئے تصویروں کے سکرین شاٹس بھی بھجوا دیئے) پولیس نے اس دوران عمران علی کے اہل خانہ کو خفیہ جگہ شفٹ کیا اور گھر کے سامنے نفری لگا دی‘ ہمیں اس کے بعد پولیس کے سکواڈ میں لاہور لے جایا گیا‘ ہمیں پہلے پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان سے ملایا گیا‘ ملک احمد نے ہمیں ڈی این اے کے بارے میں بریفنگ دی۔
ہمیں مجرم کے بارے میں بھی بتایا گیا اور یہ بھی بتایا گیا پنجاب حکومت کس طرح سائنسی بنیادوں پر مجرم تک پہنچی‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ‘ فرانزک لیب اور جے آئی ٹی نے کتنا کام کیا‘ خفیہ ادارے مجرم کا کہاں کہاں پیچھا کرتے رہے اور وزیراعلیٰ کس طرح خود اس کیس کی نگرانی کرتے رہے‘ ہم یہ ساری کارروائی سن کر حیران رہ گئے کیونکہ ہم جانتے تھے پولیس کو عمران علی تک ہم نے پہنچایا تھا‘ پنجاب حکومت کی ساری ”سائنسی بنیادیں“ میرے موبائل فون میں ”سیو“ تھیں اور ہم پولیس کو 14 جنوری سے عمران علی کی تصویریں دکھا رہے تھے‘ میڈیا پر دکھائی جانے والی تصاویر بھی میں نے آر پی او کو دی تھیں لیکن ہمیں ایک طویل سائنسی داستان سنائی جا رہی تھی۔
میں نے اور امین بھائی نے ملک احمد خان سے صرف ایک مطالبہ کیا‘ ہماری قاتل سے ملاقات کرا دی جائے‘ ملک احمد خان نے پوچھا‘ آپ اس سے کیوں ملنا چاہتے ہیں‘ میں نے جواب دیا‘ ہم اس سے چند سوال کرنا چاہتے ہیں‘ ملک احمد خان نے معذرت کر لی‘ ہمیں اس کے بعد چیف منسٹر آفس لے جایا گیا‘ امین بھائی کو سٹیج پر بٹھا دیا گیا‘ وزیراعلیٰ آئے اور اس کے بعد پوری دنیا نے تماشہ دیکھا‘ امین بھائی کا مائیک بھی بند کر دیا گیا“۔میں نے عمران انصاری سے پوچھا ”امین انصاری کا مائیک کیوں بند کیا گیا تھا“ عمران انصاری نے جواب دیا ”ہم قطعی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن شاید وزیراعلیٰ کا خیال تھا امین بھائی کہیں میڈیا کو عمران علی کی گرفتاری کی ساری داستان نہ سنا دیں‘ یہ کہیں دنیا کو یہ نہ بتا دیں عمران علی سائنسی بنیادوں کی بجائے انصاری محلے کی بنیادوں پر گرفتار ہوا تھا‘ یہ ہم تھے جنہوں نے سی سی ٹی وی فوٹیج سے لے کر عمران علی کی گرفتاری تک کام کیا تھا‘ پولیس کا پورا سسٹم فیل ہو گیا تھا‘ یہ لوگ ملزم کے موبائل تک بھی نہیں پہنچ سکے تھے‘ عمران علی کی جیکٹ بھی ملزم کی گرفتاری کے بعد ملی تھی‘ پولیس نے 22 اور 23 جنوری کی درمیانی رات ملزم کے گھر کی تلاشی کے دوران جیکٹ برآمد کی چنانچہ ملزم کی شیو ہو‘ جوتے ہوں‘ لاش ملنے سے پچھلی رات اس کی وہاں موجودگی کے تین ثبوت ہوں‘ ڈی این اے سے بچنے کی کوشش ہو‘ پولیس کو سیمپل پر مجبور کرنا ہو یا پھر خودکشی کی کوشش ہو یہ ساری معلومات ہم نے دی تھیں‘ پولیس کی سائنسی بنیادیں-تالیاں اور مبارک بادیں نہ جانے کہاں سے درمیاں میں آ گئیں چنانچہ وزیراعلیٰ کو خوف تھا امین بھائی یہ سارا راز کھول دیں گے‘ ہم ملزم سے ملنا بھی چاہتے تھے اور حکومت ہمیں ملانا نہیں چاہتی تھی‘ وزیراعلیٰ کا یہ خیال بھی تھا امین بھائی یہ مطالبہ بھی کر دیں گے لہٰذا ہمارا مائیک بند کر دیا گیا“۔
زینب کا قاتل بہرحال 23 جنوری کو گرفتار ہو گیا‘ یہ نعت خوان تھا‘ یہ نقابت کرتا تھا‘ اسے ویڈیو گیم اور کیرم بورڈ کھیلنے کا شوق بھی تھا‘ یہ شرطیں بھی لگاتا تھا اور یہ حیران کن حد تک ہر شرط جیت جاتا تھا‘ پولیس نے 23 جنوری کو اس کی نشاندہی پر قادر آباد مسجد کے امام قاری سہیل کو بھی گرفتار کر لیا‘عمران علی قاری سہیل کا شاگرد تھا‘ یہ ان سے نقش اور تعویز کا کام سیکھتا تھا‘ عمران علی نے زینب کے اغواء کے بعد موبائل فون پر قاری سہیل سے 60 مرتبہ لمبی لمبی گفتگو کی تھی‘ عمران علی کی گرفتاری کے بعد بے شمار کہانیاں سامنے آ رہی ہیں‘ محلے کی بچیاں اور بچے بتا رہے ہیں یہ ہمیں اکثر اوقات ٹافیاں‘ چاکلیٹ‘ مٹھائی اور چاول دیتا تھا اور ہم سے غلط غلط حرکتیں کرتا تھا‘ محلے کی دس بچیاں اس کی ہوس کا نشانہ بن گئیں‘ دو درجن بچیوں کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔
میں سمجھتا ہوں یہ شخص مرحومہ زینب فاطمہ کے والدین کی اس دعا کے صدقے گرفتار ہوا جو انہوں نے مدینہ سے رخصت ہوتے وقت روضہ رسولؐ پر کی‘ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کے صدقے بے شمار بچیوں کی جان بھی بچا لی‘ معاشرے کا کھوکھلا پن بھی کھول دیا‘ ریاست اور ریاست کے نظام کا ملمع بھی اتار دیا‘ جعلی شائننگ سٹارز کی شائننگ بھی کھول دی اور یہ بھی ثابت کر دیا ہم ذہنی‘ اخلاقی اور شعوری طور پر کس قدر احمق ہیں‘ زینب فاطمہ چلی گئی لیکن یہ ملک کو حماقت ستان ثابت کر گئی‘ ہم سب کی اصلیت کھل کر سامنے آ گئی۔
آپ صرف کریڈٹ لینے کی دوڑ کا تجزیہ کر لیجئے‘ وزیراعلیٰ کا دعویٰ ہے عمران علی کی گرفتاری ان کی شبانہ روز کاوشوں کا نتیجہ ہے‘ ملزم آج ان کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہے اور یہ مجرم کو سرعام پھانسی دے کر تاریخ بھی رقم کر دیں گے‘ پولیس ڈیپارٹمنٹ دعویٰ کر رہا ہے یہ ہمارا کمال ہے ہم نے 3 لاکھ لوگوں کا ڈیٹا نکالا‘ قصور کی کل آبادی 7 لاکھ ہے‘ گویا شہر کے ہر بالغ کا ڈیٹا نکالا گیا‘ وہ ڈیٹا کیا تھا‘ آپ اگر وہ دیکھیں تو آپ سر پیٹ لیں گے-وہ نادرا کا ریکارڈ تھا‘ 6 لاکھ لوگوں میں سے 60 ہزار کو کاؤنٹر چیک کیا گیا لیکن عمران علی اس کاؤنٹر چیکنگ سے صاف نکل گیا‘ 6 ہزار ٹیلی فون کالز ٹریس کی گئیں لیکن ان میں عمران علی کی کوئی کال شامل نہیں تھی‘ 14 دن تین سٹیٹ آف دی آرٹ آئی سی سی سی وینز چوبیس گھنٹے علاقے کا مشاہدہ کرتی رہیں لیکن یہ سٹیٹ آف دی آرٹ عمران علی تک نہیں پہنچ سکیں‘ 1150 ڈی این اے سیمپلز لئے گئے‘ یہ جرائم کی تاریخ کی تیسری بڑی کولیکشن تھی لیکن عمران علی کا سیمپل خاندان کے اصرار پر لیا گیا‘ 12 سو خاندانوں کا ”فیملی ٹری“ دیکھا گیا لیکن عمران علی شریف پایا گیا اور 20 پولی گرافک ٹیسٹ ہوئے لیکن عمران علی کا ٹیسٹ اعتراف جرم کے بعد 23 جنوری کو ہوا‘ کیا تاریخ کی اس مکمل ناکامی پر تالیاں بجائی جانی چاہیے تھیں؟ آپ کریڈٹ کی دوڑ دیکھئے!پنجاب آئی ٹی بورڈ اور ڈاکٹر عمر سیف دعویٰ کر رہے ہیں یہ گرفتاری ٹیکنالوجی اور سائنٹفک انویسٹی گیشن کا کمال ہے۔
ڈی جی فرانزک لیب ڈاکٹر محمد اشرف طاہر کا دعویٰ ہے یہ میری کامیابی ہے‘ میں نے ذاتی طور پر یہ کمال کیا تھا جبکہ حقیقت یہ تھی لیب کے ایک ٹیکنیشن نے 21 اور 22 جنوری کی درمیانی رات ڈی جی کو جگا کر بتایا تھا ”سر ایک ڈی این اے میچ کر رہا ہے“ اور ڈی جی صاحب 23 جنوری کو شائننگ سٹار بن کر سٹیج پر چڑھ گئے اور اپنی ذاتی کارکردگی سے تمام شرکاء کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا‘وہ جے آئی ٹی جو 23 جنوری کی دوپہر تک ملزم کے نام سے بھی ناواقف تھی وہ بھی اسے اپنا کارنامہ ثابت کر رہی ہے‘ قصور کی سپیشل برانچ کا ایک خط بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے‘ خط میں سب انسپکٹر محمد صدیق اپنے سینئرز سے مشکوک شخص عمران علی کی گرفتاری کی درخواست کر رہا ہے۔ اُدھر زینب فاطمہ کا خاندان بھی دعویٰ کر رہا ہے عمران علی کو ہم نے دوبار گرفتار کرایا تھا اور پولیس نے دونوں مرتبہ اسے چھوڑ دیا تھا اور یہ ہم ہیں جنہوں نے پولیس کو عمران علی کی گرفتاری پر مجبور کیا‘آپ پچھلے چھ دن کے اخبارات کھول کر دیکھ لیں‘ آپ کو ریلوے اور محکمہ ڈاک کے علاوہ تمام سرکاری ادارے کریڈٹ لیتے نظر آئیں گے‘ آپ کو پنجاب کے سارے محکمے شائننگ سٹارز ملیں گے بس میڈیا پیچھے رہ گیا تھا اور ڈاکٹر شاہد مسعود نے زندگی کا آخری تیر چلا کر یہ کسر بھی پوری کر دی‘ آپ انتہا دیکھئے ڈاکٹر شاہد مسعود سے لے کر بابا رحمتے تک کوئی افلاطون بینکنگ کے سسٹم کو نہیں سمجھتا‘ ڈاکٹر شاہد مسعود کو یہ بھی معلوم نہیں عمران علی نے پاسپورٹ نہیں بنوایا تھا۔
یہ ملک سے باہر بھی نہیں گیا تھا چنانچہ یہ پاکستان میں رہ کر بیرون ملک اکاؤنٹس کیسے کھلوا سکتا تھا؟ ڈاکٹر صاحب یہ بھی نہیں جانتے پاکستان میں بیرون ملک سے رقم سٹیٹ بینک کے ذریعے آتی ہے‘ آپ سٹیٹ بینک سے بچ کر بینکوں میں رقم دائیں بائیں نہیں کر سکتے اور آپ حماقت دیکھئے! عمران علی کے چالیس یا چار سو اکاؤنٹس تھے‘ یہ کروڑوں اور اربوں روپے میں کھیل رہا تھا لیکن یہ ٹیکس نیٹ میں نہیں آیا‘ ایف بی آر اور پوری دنیا اس کے وجود اور اکاؤنٹس دونوں سے ناواقف رہی‘ کیسے؟
عمران علی کے اکاؤنٹس دراصل ”لاگ ڈیٹا“ ہیں‘ یہ فرضی ہیں لیکن آپ سسٹم کا کمال دیکھئے! پنجاب حکومت نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے خوابوں میں جنم لینے والے انکشافات پر جے آئی ٹی بنا دی اور سپریم کورٹ نے سوموٹو نوٹس لے لیا‘ کیا ریاستیں اس طرح چلتی ہیں اور اگر اسی طرح چلتی ہیں تو پھر اقوام متحدہ کو چاہیے یہ ہمارا نام تبدیل کر کے حماقت ستان رکھ دے۔میں آ خر میں زنیب فاطمہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں‘ یہ بچی کمال کر گئی‘ یہ خود چلی گئی لیکن ہمیں بتا گئی ہم احمق تھے‘ ہم احمق ہیں اور ہم ہمیشہ احمق رہیں گے‘ ہم نہیں سدھر سکتے۔