بھلے وقتوں میں ملک اور شہر احمقوں کی جنت ہوا کرتے تھے مگر آج کل جھوٹوں کی جنت کا دور دورہ ہے جھوٹ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے جھوٹوں کی جنت میں جو جتنا بڑا جھوٹ بولتا ہے اس کا رتبہ اتنا ہی بڑا ہوتا ہے ہم مانیں یا نہ مانیں ہمیں جھوٹ اچھا لگتا ہے اور سچ سے نفرت ہے اسی لئے تو ہم نے اپنے ملک کو’’ جھوٹوں کی جنت‘‘ بنا رکھا ہے ۔ہمارا نعرہ وہی پرانی ضرب المثل ہے ’’جھوٹ کہے سو لڈو کھائے، سانچ کہےسو مارا جائے۔‘‘
جھوٹوں کی جنت میں ہر چیز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اگر ہم میں کوئی برائی ہے تو وہ چھوٹی برائی نہیں ہو سکتی بلکہ ہم دنیا میں سب سے برے ہیں اور اگر ہم اچھے ہیں تو بھی تھوڑے اچھے نہیں بلکہ دنیا میں سب سے اچھے ہیں۔ اسی لئے تو ہم دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کا دعویٰ کرتے ہیں اور برے اس لئے ہیں کہ ہمارے حکمران دنیا کے کرپٹ ترین حکمران ہیں۔
جھوٹوں کی دنیا میں لفظوں کا چنائو اور کسی صفت کا استعمال بھی تفصیلی درجے تک کا ہوتا ہے ہم صرف کسی کو نا اہل نہیں نا اہل ترین لکھنے سے سکون حاصل کرتے ہیں ہمارا گناہ و ثواب کا تصور بھی ایسا ہے ۔ ہمارا مجرم بھی عام نہیں دنیا کا خطرناک ترین مجرم ہوتا ہےاور اس کا تعلق کسی نہ کسی بین الاقوامی خفیہ اور خطرناک ترین گروہ سے ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں اقتدارکی تبدیلی بھی سی آئی اے کا سب سے بڑا شخص لاتاہے اور ہمار ے خلاف سازشیں بھی ساری دنیا کے بڑے بڑے ملک کرتے ہیں غرضیکہ جھوٹوں کی جنت کی ہر بات سچ کی دنیا سے الگ اور نرالی ہے۔
بالکل اسی کیفیت اور صورتحال سے جرمنی اور جاپان بھی گزرے ہیں، سقوط ڈھاکہ یاد ہو تو ہم یہاں فتح کے جھنڈے گاڑ رہے تھے اور وہاں المیہ مشرقی پاکستان جنم لے رہا تھا۔ ہم 42شیروں کے ذریعے 542 مارنے کے ترانے گا رہے تھے اور ادھر وہاں ہمیں پے درپے شکستیں ہو رہی تھیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران بھی دہلی میں ہر روز فتح کی جھوٹی خبریں آتی تھیں۔ سقوط بغداد کے دوران بھی عظیم فتح کی خوش خبریاں سنائی جاتی تھیں مگر ہوا اس کے بالکل الٹ۔
ہر اس معاشرے میں جہاں افسانہ طراز، کہانی باز اور داستان ساز حقائق کے ٹھیکے دار اور تحقیق کے ذمہ دار بن جائیں وہاں سچ کو زوال اور جھوٹ کو عروج مل جاتا ہے۔ جھوٹ کو ماننا، تسلیم کرنا اورحرز جاں بنانا دراصل ایک مرض یا روگ ہے جو تعصب زدہ اور نفرت زدہ معاشرے میں پروان چڑھتا ہے جھوٹ ایک ایسا نشہ بن جاتا ہے جو نفرت اور تعصب کا شکار انسانوں کو سکون مہیا کرتا ہے مگر ہیروئن کی طرح جب یہ نشہ اترتا ہے یا جب کبھی سچ کا سورج نصف النہار پر آتا ہے تو مریض شکست و ریخت کا شکار ہو جاتے ہیں مگر اس وقت تک افراد اور معاشرے تباہی کے کنارے تک پہنچ چکے ہوتے ہیں اور اس وقت حالات سے سمجھوتہ ممکن نہیں ہوتا۔
ہماری جھوٹوں کی جنت کا اس وقت حال خراب ہے جھوٹ کا سکہ زوروں سے چل رہا ہے جو توازن کی بات کرے ہم اسے منافق کہتے ہیں جو سچ کا سہارا لے ہم اسے ظالم اور مجرم کہتے ہیں جو جوش کی بجائے ہوش سے کام لینے کی تلقین کرے ہم اسے بے حس کہتے ہیں۔ معاشرے کی بنیاد ہی جب یہ بن جائے کہ یا جھوٹ تیرا آسرا، توکوئی کیا کرے۔
جب سے یہ آشکار ہوا ہے کہ واقعہ قصور اور واقعہ سرگودھا کے مجرم عالمی پور نو گرافی گروہ کے ممبر ہیں اور عمران علی کے 37 بینک اکائونٹ ہیں میرا جھوٹوں کی جنت اور اس کے نقیبوں پر ایمان اور بھی پختہ ہو گیا ہے، خاص کر اس خبر پر کہ عمران علی کے فارن اکائونٹس ہیں مجھے جھوٹوں کی جنت پر رشک آیا کہ یہاں کی زندگی کتنی اچھی ہے جھوٹ بولو اور عزت پائو۔ ثبوت تحقیق، سچ اور دستاویزات کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں جھوٹ ایسا ہو کہ اس کے ڈانڈے حکومت کے ٹاپ لیول پر ملتے ہوں اس کا تعلق کسی نہ کسی بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہ سے ہو اور اس میں اتنی بڑی سازش ہو کہ جس سے ملک کے استحکام کو شدید خطرہ ہو۔ اگر آپ ایسا جھوٹ بنا لیں تو بلے ہی بلے۔ اس جھوٹے دیس کے سارے باسی آپ کو اپنا روحانی استاد مان لیتے ہیں۔
ماضی کے مڈل کلاسیے اور میرے محبوب عوامی لیڈر شیخ رشید معاشرے کی رمزوں کو خوب سمجھتے ہیں اسی لئے انہوں نےبھی اختراع عظیم سے کام لیتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان کے خلاف ٹویٹ کو نواز شریف کی مدد کے ساتھ جوڑ دیا ہے حتیٰ کہ انہوں نے التباس کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ملاقاتوں کا مقصد بھی نواز شریف کو فائدہ پہنچانے کی کاوش گردانا ۔
میرے فاضل دوست شیخ رشید نے دنیا بھر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار نواز شریف کو قرار دیا ہے اور اس دیس کی بھلائی کے لئے تجویز کیا ہے کہ کسی نہ کسی طور نواز شریف کو سیاست سے دیس نکالا دیا جائے۔ دوسری طرف عمران خان کے مخالف بھی گھڑنت کا سہارالیتے ہوئے انہیں یہودی ایجنٹ قرار دینے میں تامل اختیار نہیں کرتے اور عمران کے مخالف کیمپ میں اس پر تالیاں بجتی ہیں آصف زرداری کے بارے میں بھی دم بازیہ اڑاتے نظر آتے ہیں کہ وہ روٹی یا سبزی والا سالن نہیں بلکہ ڈالر کے نوالے سے سونے کا سالن کھاتے ہیں۔ آخر یہ جھوٹوں کی جنت ہے یہاں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
بچپن میں ٹارزن ، عمر و عیار اور نیڈ کی غیر حقیقی کہانیاں پڑھتے رہے مگر ہمیشہ انکے محیر العقول واقعات پر فوراً یقین آ تا رہا داستان امیر حمزہ میں عمر وعیار کی زنبیل سے کچھ بھی برآمد ہو سکتا تھا اور کچھ بھی غائب ہو سکتا تھا ۔ لڑکپن میں جیمز بانڈ کے کارناموں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ سب نظر کا دھوکہ ہے سب سچ ہی لگتا تھا۔ ڈان براون کے ناول پڑھیں یا ارحن پاموک کی تاریخی فکشن سب حقیقت ہی محسوس ہوتی رہی اس لئے جھوٹوں کی جنت بھی بالکل اسی طرح افسانوی ، خیالی اور غیر حقیقی لگتی ہے۔مگر پھر بھی یہاں بولے جانے والے جھوٹوں اور افتراء پردازی پر یقین آ جاتا ہے۔
مزے کی حد تک یقین درست ہے مگر خوابوں کو حقیقت مان لینا، سراب کو منزل جان لینا، جھوٹ کو سچ مان لینا، افسانے کو سچا واقعہ سمجھ لینا، دروغ گوئی کو حق شعاری قرار دینااور فریب دہی کو راست بازی کا رنگ دینا قوموں کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ جھوٹ کے ان خوابوں سے کوئی جگائے اور ہمیں صرف اور صرف حقائق اور سچ پر قائم رکھنے کا درس دے کوئی قائد اعظم آئے جو خود سچ بولے اور جھوٹوں سے نفرت کرے اور انہیں ان کی کذب بیانی کی سزا دے۔ معاشرے جھوٹ پر نہیں سچ پر چلتے ہیں چاہے وہ سچ کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو۔ ہم گناہگار ہیں ہم برے ہیں مگر دنیا کے برے ترین نہیں۔ کاش جھوٹ کی جنت کا خاتمہ ہو اور سچ کا کڑوا پن عام ہو۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}