299

سیاست اور ہماری اخلاقی اقدار۔

آج کل عمران خان کی تیسری شادی کا خوب چرچا ہے۔ ہونا بھی چاہیے کیونکہ عمران خان صاحب ایک عوامی شخصیت ہیں ۔ عوامی شخصیات کے بارے میں ہر کسی کو اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق رائے رکھنے کا حق ہے۔ مگر کسی کو کسی کی ذاتیات پر حملے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

المیہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی ذاتیات کی تو دور کی بات ہے انکی اہلیہ کے بارے میں میں بہت نازیبہ الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں ۔ 


سوشل میڈیا پر خود بیٹیوں اور بہنوں والے خان صاحب کی اہلیہ کے بارے غلاظت اگل رہے ہیں۔ نہ صرف خان صاحب کے اہلیہ کے بارے بلکہ محترمہ مریم صفدر اور بہت سی خواتین کے بارے سیاسی حریف ہونے کی وجہ سے بکواس لکھتے ہیں اور دوسرے لوگ بغیر سوچے سمجھے اس کو اپنی فیسبک پر لگا لیتے ہیں۔

اس بات کا کبھی خیال نہیں کرتے کہ یہ مستورات کسی بہو بہٹیاں ہیں، کسی کی سر کی پگڑیاں ہیں تو کسی کے گھر کی رحمت ہیں ۔ ہمارے آباواجداد تو دشمن کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھتے تھے۔ بیٹیوں اور بہنوں والوں کے سامنے جب کوئ لڑکی آتی ہے تو احترام سے نگاہیں نیچے ہو جاتی ہیں ۔

کیا ہم اخلاق سے اور شعور سے اتنے گر گئےہیں کہ مخالفت برائے مخالفت میں اپنے سیاسی حریفوں کی بہو بیٹیوں کی عزت پر حملے کرنا شروع دیں۔

جب حاتم طائی کی بیٹی قید ہوکر نبؐی کے پاس آئی تو انکے سر سے چادر کھسک گئی تو نبؐی نے حضرت عمؓر کو فرمایا کہ ان کے سر پر چادر دے دو تو حضرت عمؓر نے عرض کیا کہ یہ تو کافر کی بیٹی ہے تو نبؐی نے فرمایا کہ بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے خواہ کسی کی بھی ہو۔

ہم اس نبؐی کے امتی ہیں جو کافر کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھیں تو ہم کیسے امتی ہیں۔؟ کیسے مسلمان ہیں؟ ۔ 

ہمارے قول وفعل میں تضاد ہے جب مختاراں بی بی اور معصوم زینب کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوتا ہے تو ہم فیسبکی جہادی بن کر عورت کے احترام کی بہت باتیں کرتے ہیں مگر اپنے سیاسی حریفوں کے گھرکی مستورات پر گندگی اچھال کر بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جب تک ہم صحیح معنوں میں دوسروں کی بہو بیٹیوں کا احترام کرنا نہیں سیکھیں گے تو مختاراں بی بی اور زینب جیسے غیر انسانی واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ اور جو لوگ دوسروں کی عورتوں کا احترام کرتے ہیں تو اس کے گھر کی مستورات کی اللہ خود حفاظت کرتا ہے۔

میرے خیال میں نوجوان نسل باشعور اور سیاسی بصیرت کی حامل ہےمگر جب سماجی سائیڈز پر دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے جب علماء اور سیاسی رہنما غلیظ الفاظ استعمال کرکے جہالت سے خوب داد وصول کرتے ہیں تو بہتری کی امید ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

ہم نفرتوں میں اس قدر آگے چلے جاتے ہیں واپسی کے سارے راستے بند کر دیتے ہیں۔ مزہب ہو یا سیاست بہث مباحثہ ضرور کرو مگر اتنی سی گنجائش رکھا کریں کہ بعد میں شرمندگی کا سامنا نہ کرناپڑے۔

ہم کو ایک اچھا انسان ،اچھا مسلمان ہونے کے ناطے تمام ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو مخالفت برائے مخالفت اور اپنے سیاسی حریف ہونےکی وجہ سے دوسروں کی ذات پر یا عزت پر حملہ کرتے ہوں۔ بعض دفع دیکھنے میں آیا کہ لائکس اور شئرز کے چکر میں تمام اخلاقی حدیں پارکر جاتے ہیں اس لیے ہمیں ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

یہ بھول جاتے ہیں کہ عورت تو عورت ہوتی ہے اور بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام بیٹیوں کے ساتھ ہم سب کی بیٹیوں کو اپنی امان میں رکھے اور ہم کوسوچنے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں