میں ڈچ زبان کے شارٹ کورس کیلیے برسلز آیا ہوا تھا۔ میرا دوست احسان جو گوجرانوالہ کے عبدالرزاق صاحب کے مولن بیک میں واقعہ گھر کے اوپر والے پورشن میں ان سے کرایہ پر ایک کمرہ لیکر وہاں یارِ دیگر کے ہمراہ رہ رہا تھا۔ اس سے پہلے ہم دوسرے مختلف اپارٹمنٹس میں اکٹھے رہ چکے تھے۔ چنانچہ میں نے ان کے ساتھ ہی قیام کر لیا۔
کھڑکی کے قریب مسہری ، ایک صوفہ اور ایک گدا موجود تھے . میں چونکہ مہمان تھا ، مسہری کا حقدار مجھے ٹھہرا دیا گیا جبکہ میرے قریب ہی نیچے گدا سلیم ڈال لیتا اور احسان خود صوفے پر سو جاتا۔ ایسے ہی غیرملک میں دیسی پردیسی ایڈجسٹ کر لیتے ہیں۔ میرے بیڈ کی پائنتی کے قریب رکھی میز کرسی پر بیٹھ کر میں پڑھ لیتا۔
ایک رات سلیم اور احسان سوئے ہوئے تھے . کمرے کی لائٹ بند تھی اور میں ٹیبل لیمپ کی روشنی میں بیٹھا پڑھ رہا تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر تھوڑی دیر کیبعد چٹکیوں کی آواز آنے لگی۔ پہلے میں نے دھیان نہیں دیا مگر آوازیں تواتر سے آنے لگیں تو میں نے سوچا شاید ٹیبل لیمپ کے روشنی باہر جا رہی ہے جو کسی کو ڈسٹرب کر رہی ہے۔ میں نے لائٹ بند کی اور بستر پر جا سویا۔
کھڑکی کے باہر کھلی سی صحن نما جگہ تھی اور اسکے گرد جڑی ہوئی عمارات کھڑی تھیں جن کی کھڑکیاں اسی صحن نما بند جگہ کی طرف کھلتی تھیں۔ ہمارے دائیں بائیں سامنے سب عمارات کی تمام منزلوں کی کھڑکیاں نظر آتی تھیں۔ ابھی لیٹے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ واپس چٹکیوں کی آواز آنے لگی جو متواتر بڑھتی چلی گئی۔ بلکہ بعد میں تو تالیوں کی آوازیں بھی آنے لگیں۔ تھوڑی دیر گزری پھر پتھروں کی آواز آنے لگی۔ پتھروں کا شور چونکہ زیادہ تھا ، کمرے میں موجود سلیم اور احسان بھی جاگ گئے۔
جیسا کہ میں کھڑکی کے قریب تھا ، میں نے پردہ ہٹایا کہ باہر دیکھوں مگر سلیم نے میرا بازو کھینچ لیا۔ وہ کہنے لگا لگتا ہے یہ سایہ ہے باہر نہ دیکھو۔ جو تھوڑی دیر میں باہر دیکھ سکا تھا ، سامنے والے سب لوگ بھی کھڑکیاں کھول کر باہر دیکھنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔
ہم چونکہ تیسری منزل میں تھے ، پتھر گرنے کی آواز بہت نیچے سے آتی تھی۔ کچھ دیر بعد لگا جیسے بڑے روڑے اور اینٹیں گرائی جانے لگی ہیں ۔ ہم آیات قرآنیہ پڑھنے لگے مگر یہ سلسلہ تھمنے کی بجائے بڑھتا ہی گیا . یہاں تک کہ گرنے کی آوازیں اب قریب سے آنے لگی تھیں ، جیسے وہ صحن نما روڑے پتھر اور اینٹوں کے ملبے سے بھر کر پہاڑ کی طرح تیسری منزل کی اونچائی تک پہنچ گیا ہو۔
ہم پڑھتے رہے ، نامعلوم کب شور تھما اور کب ہم نیند کی آغوش میں جا پہنچے . صبح میں بیدار ہوا تو سلیم اور احسان اپنے اپنے کام پر جا چکے تھے ۔ اور مجھے بھی رات کی کہانی کا زرا برابر ہوش نہ رہا۔ دوپہر کو مالک مکان عبدالرزاق آئے تو پوچھنے لگے۔ ہاں بھئی رات مہمان آئے تھے . پہلے تو میں سمجھا نہیں کہ کیا کہ رہے ہیں۔ مگر جب مجھے رات بیتی یاد آئی تو میں فٹ کھڑکی کے قریب جا کھڑا ہوا۔ باہر کیا دیکھتا ہوں کہ چٹیل میدان ہے ، جیسے رات کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
مجھے مستعجب دیکھا تو عبدالرزاق صاحب کہنے لگے یہ جنات تھے۔ ہر سال آتے ہیں . ایک مراکشی عورت یہاں رہتی تھی پہلے اسکے ساتھ آئے تھے . اسکے جانے کے بعد یہ بھی رخصت ہو گئے مگر سال میں ایک دو بار حاضری دے جاتے ہیں۔ میں حیران و پریشان تھا کہ رات کو تو گمان ہو رہا تھا کہ وہاں روڑے کا ایک بلند پہاڑ بن گیا ہو گا مگر یہاں تو دیکھنے کو ایک پتھر بھی موجود نہیں تھا۔
عبدالرزاق صاحب نے بتایا کہ جب وہ مراکشی خاتون یہاں رہائش پذیر تھی تب یہ مکان میری ملکیت میں نہیں تھا۔ یہ مائی بیسمنٹ میں رہتی تھی اور ایک بار گلی سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ کیتلی میں ابل کر کھولتا ہوا پانی غٹاغٹ پی رہی تھی۔
شام کو ساتھ والے کمرے کا رہائشی مراکش کا عبدالعزیز اور اوپر کے ایک کمرے کا کرایہ دار کشمیری ماسٹر آئے تو دونوں نے رات کی الگ الگ کہانی بتائی۔ ان دونوں کی کھڑکیاں اس طرف کی بجائے گلی کی طرف تھیں، شاید اس لیے انکے ساتھ پیش آئے معاملے کی نوعیت بھی مختلف تھی . عبدالعزیز کو غالباً ڈراؤنا خواب آیا تھا۔
اس بیتے واقعے سے ایک بات سمجھ نہیں آتی۔ سلیم نے جاگتے ہی فورا ادراک کیسے کر لیا کہ یہ معاملہ سایہ کا ہے۔ اور میں اتنی دیر سے یہ سب کچھ جاگتے ہوئے سننے کے باوجود کیوں نہیں جان سکا کہ معاملہ کچھ آسیبی یا جناتی ہے۔ ادراک نہیں ہوا تو صاف ظاہر ہے خوف زدہ بھی نہیں ہوا۔ شاید کچھ لوگوں کو اس طرح کی چیزوں کو محسوس کرنے کی حسیات زیادہ ہوتی ہیں اور دیگر کی یہ حس کم یا میری طرح بالکل ہی نہیں ہوتی۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}