یہ تو آپ نے کئی بار سنا ہو گا کہ معزز رکن پارلیمان کا استحقاق مجروح ہو گیا لیکن کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ بھائی جان استحقاق کب کیوں اور کیسے مجروح ہو جاتے ہیں؟ آئیے بھائی استحقاق کی نازک مزاجیاں دیکھتے ہیں ۔
24 جنوری 2018 کو سینیٹ سیکرٹریٹ سے ایک Most Immediate نوٹس جاری ہوا۔اس کے تحت قائمہ کمیٹی برائے قواعدو ضوابط اور استحقاق کا اجلاس 6 فروری کو طلب کیا گیا ۔ اس اجلاس کا ایجنڈاپڑھیے اور سر پیٹ لیجیے۔
سب سے پہلا ایجنڈا آئیٹم یہ تھا کہ 17 ستمبر 2017 کو کہیں چیئر مین سینیٹ صاحب کراچی تشریف لے گئے۔ اس وقت وہ قائم مقام صدر بھی تھے۔ لیکن کراچی ایر پورٹ پر انہیں وصول کرنے کے لیے چیف سیکرٹری، آئی جی سندھ، کمشنر کراچی اور ڈپٹی کمشنر ملیر کیوں نہیں آئے اور کیوں پروٹوکول نہیں دیا۔ ملک کے داخلی اور خارجی حالات دیکھیے اور ان عالی مرتبوں کے لیے بغلیں بجائیے کہ یہ کن اہم قومی امور کو حل کرنے میں مصروف ہیں۔
ستمبر کی بات ہے ، فروری آ گیا لیکن استحقاق کوئی ایسی چیز ہے کہ نظر انداز کر دی جاتی یا محض ایک تنبیہہ کر کے معاملہ نبٹا دیا جاتا۔ہر گز نہیں ۔ بھلایہ کوئی معمولی جرم ہے کہ چیئر مین سینیٹ کراچی جائیں اور چیف سیکرٹری ، آئی جی سندھ ، کمشنر کراچی اور ڈپٹی کمشنر ملیر سارے کام چھوڑ کر انہیں خوش آمدید کہنے وہاں حاضر نہ ہوں۔ عوم جائیں جہنم میں ، ان افسران کو اس روز اپنے جملہ فرائض اور سرکاری کام چھوڑ کر کورنش بجا لانے کے لیے ایئر پورٹ پر ہونا چاہیے تھا۔آخرہمارے محبوب رہنما سیاست اس لیے تو نہیں کرتے کہ کسی ایئر پورٹ پر کوئی سرکاری افسر انہیں یہ احساس بھی نہ دلا سکے کہ مہاراج آپ کا اقبال دو فٹ مزید بلند ہو جائے ، یہ سارا پروٹوکول تو آپ کے قدموں کی دھول ہے۔بلکہ جنوری کے بعد اگر ملک میں فروری آتا ہے تو یہ بھی آپ کی بصیرت اوردانش کا ایک نادر نمونہ ہے۔
ان کی منطق دیکھیے، پانامہ کی لوٹ مار پر قانون حرکت میں نہیں آنا چاہیے لیکن اپنے پروٹوکول میں کمی رہ جائے تو یہ جرم قابل معافی نہیں۔اب کیا ہو گا؟ یہ افسران حاضر ہوں گے۔ ان کی آنیوں جانیوں کے اخراجات غریب عوام برداشت کریں گے۔سب کا وقت ضائع ہو گا۔سرکاری افسران کراچی سے اسلام آباد آئیں گے اور ہمارے محبوب قائدین سے اس عظیم گستاخی پر ہاتھ باندھ کرمعافی مانگیں گے ۔ یوں ہمارے عالی مرتبوں کی انا گنے کا رس پیے گی اور آسودہ ہو جائے گی۔ساتھ ہی وہ جمہوریت ایک بار پھر مضبوط ہو جائے گی جس کی پر شکوہ عمارت پروٹوکول نہ ملنے سے لرز رہی تھی۔
20 ستمبر 2016 کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے استحقاق کا ایک اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں تو انتہائی اہم قومی امور زیر بحث آئے۔ معلوم ہوا کہ جھنگ سے رکن قومی اسمبلی جناب نجف سیال کا استحقاق مجروح ہو چکا ہے ۔ انہوں نے کمیٹی کو اس کی شکایت کی اور کمیٹی نے وسیع تر قومی مفاد میں اس کا نوٹس لے لیا۔
ہوا یہ کہ ان کے حلقہ انتخاب کے ایک گاؤں وسو آستانہ میں ایک ڈاکخانہ کھولا گیا۔اس کی رسم افتتاح میں پوسٹ آفس سپرنٹنڈنٹ آئے اور گاؤں میں ڈاکخانہ کھول کر چلے گئے۔ چنانچہ معزز رکن پارلی مان کا استحقاق مجروح ہو گیا۔انہوں نے کہا کہ منتخب نمائندہ میں تھا۔یہ ڈاکخانے کا ملازم تھا اسے کسی نے منتخب نہیں کیا تھا تو ڈاکخانہ میں نے جا کر کھولنا تھا۔اس سپرنٹنڈنٹ نے کیوں جا کر یہ کام کر دیا ۔اس سے میرا استحقاق مجروح ہوا۔
معلوم نہیں اس ناہنجار سپرنٹنڈنٹ کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ، تاہم اگر ابھی یہ کارروائی ہونا باقی ہے تو اس کم بخت پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ قائم کر دینا چاہیے۔اس نے جمہوریت کے خلاف اتنی بڑی سازش کر دی۔ ضرور اسے کہیں سے اشارہ ہوا ہو گا کہ یہ کام کر دو اور یوں اس نے جمہوریت کے خلاف سازش کی ہو گی۔
اسی اجلاس میں معلوم ہوا کہ محترم بلال ورک صاحب کا بھی استحقاق مجروح ہو چکا ہے۔ 16 جولائی 2016 کو معزز رکن قومی اسمبلی نے PK 711 پر سفر کیا ۔ ان کا استحقاق یوں مجروح ہوا کہ فضائی عملے اور لاہور سٹیشن مینیجر نے ان سے Indifferent Attitude رکھا۔ یعنی نہ بہت اچھا سلوک کیا نہ ہی برا سلوک کیا۔اب دیکھا جائے تو آئین کے مطابق تمام شہری برابر ہوتے ہیں اور سب سے ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ اگر معز زرکن کے ساتھ کوئی بد تمیزی ہوئی ہوتی تو ان کا شکوہ بجا ہوتا لیکن ان کا استحقاق صرف اس بات پر مجروح ہو گیا کہ ان کی جی حضوری نہیں کی گئی۔
کیا ان کے خیال میں پی آئی اے میں کوئی ایم این اے تشریف فرما ہو جائے تو فضائی عملے کو لڈیاں اور دھمال ڈالنی چاہیے؟اور یہ سٹیشن مینیجر پر کس بات کا غصہ؟ کیا سٹیشن مینیجر کے فرائض منصبی میں کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ کوئی رکن قومی اسمبلی ایئر پورٹ پر اترے وہ سارے عملے کے ساتھ صف بنا کر قوالی کرنا شروع کر دے کہ :’’ ماہی آوے گا میں پھُلاں نال دھرتی سجاواں گی؟‘‘۔سٹیشن مینیجر نے ایسا نہ کر کے یقیناًجمہوریت کے خلاف سازش کی ہے ۔ایسے سازشیوں کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
محترمہ شازیہ مری کے استحقاق کے مجروح ہونے کی کہانی تو بہت ہی دردناک ہے۔یہ تو معزز ارکین پارلیمان کی میانہ روی ہے کہ اس پر انہوں نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب نہیں کر لیا یا معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو نہیں بھیج دیا۔
29ستمبر 2017 کو ہونے والے قائمہ کمیٹی برائے استحغقاق کے اجلاس سے معلوم ہوا کہ محترمہ نے کہیں کسی بینک سے کریڈٹ کارڈ لینا چاہا لیکن بینک نے سیکیورٹی لیے بغیر کارڈ دینے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ استحقاق بھائی جان کھڑے کھڑے مجروح ہو گئے اور بھائی جان نے مجروح ہونے سے پہلے یہ بھی نہ سوچا کہ بینک سیاسی رہنماؤں سے اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہیں کہ سیکیورٹی کے بغیر کریڈٹ کارڈ نہیں دے رہے۔ ویسے مجھے تو یہ بینک مینیجر بھی واجد ضیاء کا کزن لگتا ہے اور جمہوری قائدین کے بارے میں بلا وجہ بد گمانیاں پھیلا کر جمہوریت کو کمزور کر رہا ہے۔اس کم بخت کو گرفتار کر کے دانیال عزیز صاحب سے پورا ایک مہینہ آئین کی بالادستی کا لیکچر دلوانا چاہیے تا کہ اسے معلوم ہو جائے کہ رکن اسمبلی چونکہ آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر پورا اترتے ہیں اس لیے ان کے بارے بد گمانی آ ئین کی خلاف ورزی ہے۔
20 ستمبر 2016 کو ہونے والے اجلاس سے معلوم ہوا کہ میری بہن نعیمہ کشور صاحبہ کا بھی استحقاق مجروح ہوا ہے۔چنانچہ انہوں نے پشاور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، ایکسین مردان اور اور ایس ڈی او کے خلاف شکایت کر دی۔استحقاق کیسے مجروح ہوا ؟یہ بھی سن لیجیے۔محترمہ کے حلقے میں ایک عدد ٹرانسفارمر لگایا گیا جو مقامی ایم پی اے کو دے دیا گیا اور اس نے جا کر نصب کروا دیا۔ نعیمہ کشور صاحبہ کو لگا کہ اتنی قیمتی چیز تو ایک ایم این اے کو دی جانی چاہیے تھی۔ایم پی اے کی کیا مجال کہ ٹرانسفارمر لگوائے۔چنانچہ استحقاق مجروح ہو گیا۔
عام آدمی کے ووٹ سے اسمبلی جانے والے یہ عالی مرتبت لوگ تو اتنے نازک مزاج ہیں کہ اتنی معمولی باتوں پر ان کا استحقاق مجروح ہو جاتا ہے لیکن جن کے ووٹوں سے یہ لوگ معزز بنے پھرتے ہیں کبھی کسی نے ان کے استحقاق کی بات بھی کی؟کیا ووٹر کا استحقاق مجروح نہیں ہوتا جب اسے آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے؟ایک عام آدمی کو صحت کی سہولت ہے نہ تعلیم کی، پینے کا صاف پانی میسر نہیں، دوائیں جعلی ہیں، تھانوں میں جلاد بیٹھے ہیں، دودھ کی جگہ وہ زہر پی رہا ہے لیکن اس کا استحقاق مجروح نہیں ہو رہا۔
ابھی کل کی بات ہے میں نے کیمسٹری کے پروفیسر محمد توفیق جیسے نجیب ، نفیس اور نستعلیق انسان کو اسلام آباد پمز ہسپتال کے عملے کے رویے پر افسردہ پایا۔ان کے صاحبزادے کو رات اچانک اپینڈکس کی تکلیف ہوئی اور یونیورسٹی سے دوست اسے لے کر پمز آ گئے۔پروفیسر صاحب کو معلوم ہوا تو سرگودھا سے پہنچے۔عملے کا رویہ دیکھ کر کچھ بات کی تو ترنت جواب ملا، ادھر آنا ہی نہیں تھا کسی پرائیویٹ ہسپتال میں چلے جاتے۔پروفیسر کے پاس اللہ کا دیا بہت ہے۔وقت پر پہنچتے تو کبھی پمز ان کا انتخاب نہ ہوتا ۔لیکن ایک حساس اور دیانت دار شہری کے طور پر کیا وہ اس سلوک کے مستحق تھے ؟
ایک متحمل انسان ہیں مگر مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے کہ کیا ایک سرکاری ملازم کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ مریض سے کہے یہاں آئے ہی کیوں؟ پرائیویٹ ہسپتال میں کیوں نہ چلے گئے؟
میں سر جھکائے کھڑا تھا۔اتنا بھی نہ کہہ سکا کہ پروفیسر صاحب یہ ملک ان لوگوں کی چراگاہ بن چکی جن کا استحقاق کھڑے کھڑے مجروح ہو جاتا ہے۔جس پمز میں آپ کھڑے ہیں یہاں بھی استحقاقیوں کے لیے ایک عدد کرٹسی سینٹر موجود ہے تاکہ ان کی انا کو گنے کا رس پلایا جا سکے۔مریض کی فکر چھوڑیے بس یہ دعا کیجیے کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو جائے۔ آپ کی باتوں سے ڈر ہے جمہوریت کو کالی کھانسی ، نزلہ ، زکام ، تپ دق اور تشنج نہ ہو جائے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}