اس وقت ملک میں سیاست نہایت گندے دور سے گزر رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی عوام کی عقل و فہم کا مذاق اُڑا رہے ہیں، ایم کیو ایم کئی دھڑوں میں بٹ گئی ہے بقول عوام مہاجروں کا بیڑا غرق کرنے میں مصروف ہے۔ عمران خان صاحب چاہتے ہیں کہ کل ہی وزیر اعظم بن جائیں اور شیخ رشید کو وزیر داخلہ یا وزیر خارجہ بنا دیں۔ عوام عجیب کشمکش میں ہیں۔ ان باتوں کو نظرانداز کرکے سوچا کہ کیوں نا اپنے عزیز قارئین کو اپنے پیارے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری خطبہ یعنی خطبۃالوداع کے بارے میں کچھ بتلائوں۔ میں پہلے عرض کرچکا ہوں میرا کالم ملک کے دس، پندرہ فیصددانشوروں کے لئے نہیں ہوتا میں ان کے سامنے طفل مکتب ہوں۔ میں ہمیشہ پچیاسی، نوّے فیصد اُن سیدھے سادھے عوام کے لئے لکھتا ہوں جو نا ہی زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اور نا ہی ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ کتابیں خریدیں یا رسالےخریدیں یا انٹرنیٹ کی سہولت حاصل کرسکیں اور اپنی معلومات میں اضافہ کریں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کلام مجید ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ہمارے پروردگار نے اس کے ذریعے اور ہمارے پیارے پیغمبر آخرالزمان کے وسیلے سے ہمیں زندگی کے ہر پہلو کی ہدایت فرمائی ہے۔ اور اس کا آخری باب ہمارے پیارے رسولؐ کا وہ آخری خطبہ ہے جو آپ نے عرفات میں دیا تھا۔ اس خطبہ کو دنیا کے غیرمسلم دانشور بھی ایک مثالی خطبہ یا ضابطہ حیات سمجھتے ہیں اور اسکی بے انتہا تعریف کرتے ہیں کہ واقعی یہ باتیں صرف اللہ کا ایک رسول ہی کہہ سکتا تھا۔ آئیے ہم اس خطبہ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ بات ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس خطبہ کا ایک حصّہ خاص طور پر ملکی حالات و مسائل کی نشاندہی کرتا ہے اور ایک حصّہ مخصوص بین الانسانی منشور پر مشتمل ہے۔ آپ اس خطبہ مُبارک کا مطالعہ کیجئے اور خود ہی سمجھ لیجئے:
خطبہ ٔ عَرَفات:
’’ تمام تعریفیں صرف اللہ ہی کے لئے ہیں۔ ہم اسی کی حمد کرتے ہیں۔ اسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ اسی سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں۔ اور اسی کے حضور اظہارِ ندامت کرتے ہیں۔ ہم اپنے دلوں میں فتنہ انگیزیوں اور اپنے اعمال کی برائیوں کے مقابلے میں اسی کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے اسے کوئی دوسرا گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہی ہدایت کی توفیق نہ دے اسے کوئی راۂ راست پر نہیں چلا سکتااور میں اعلان کرتا ہوں اس حقیقت کا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں اعلان کرتا ہوں اس حقیقت کا کہ محمد (ﷺ) اس کا بندہ اور اس کا رسولؐ ہے۔
اللہ کے بندو! میں تم کو اسی کی عبادت کی نصیحت کرتا ہوں اور ترغیب دلاتا ہوں۔
میں آغازِ کلام اس بات سے کرتا ہوں جو باعثِ خیر ہے۔
اس (تمہید) کے بعد (میں کہتا ہوں کہ) اے لوگو! میری باتیں غور سے سنو۔میں تم کو وضاحت سے بتاتا ہوں۔ کیونکہ میں ایسا نہیں سمجھتا کہ اس سال کے بعد میں تم سے اس مقام پر ملاقات کرسکوں۔
اے لوگو! تمہارے خون اور تمہارے مال تمہارے لئے (باہم دگر) حرام کردیئے گئے ہیں تاآنکہ تم اپنے رب کے حضور جاکے پیش ہوجائو۔ جیسے کہ اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں تمہارا یہ دن حرام ہے۔
آگاہ رہو کہ میں نے بات پہنچا دی! اے اللہ تو خود گواہ رہنا!سو جس کسی کے قبضے میں کوئی امانت ہو تو اسے اس کے مالک کو ادا کردے۔
دَورِ جاہلیّت کی سودی رقمیں کالعدم کردی گئیں اور سب سے پہلے میں اپنے چچا عباسؓ بن عبدالمُطَّلِب کے سودی مطالبات کو کالعدم کرتا ہوں۔
دَورِ جاہلیّت کے تمام خونوں کے مطالباتِ قصاص کالعدم کردیئے گئے اور سب سے پہلے میں عمار بن رَبیعہ بن حارِث بن عبدالمُطَّلِب کے خون کا مطالبہ ساقط کرتا ہوں۔ دورِ جاہلیّت کے تمام اعزازات اور مناصب کالعدم کئے جاتے ہیں ماسوائے سدانتہ (کعبہ کی دیکھ بھال کا شعبہ) اور سقایہ (حاجیوں کے لئے شعبۂ آب رسانی) کے۔قتلِ عمد کا قصاص لیا جائے گا۔ شبہ قتل عمد جو لاٹھی یا پتھر (کی ضرب) سے وقوع میں آئے اس کی دیت سو اونٹ مقرر کی جاتی ہے۔ جو اس میں اضافہ کرے سو وہ اہلِ جاہلیت میں شامل ہوگا۔
اے لوگو! شیطان (نظامِ حق کے چھا جانے کے بعد) اس بات سے تو نااُمید ہوگیا ہے کہ اب تمہاری اس سرزمین میں اس کی عبادت کی جائے گی۔ لیکن وہ اس پر بھی خوش ہوگا کہ اس کے علاوہ ان دوسرے گناہوں میں اس کی اطاعت کی جائے جن کو تم ہلکا سمجھتے ہو۔
اے لوگو! مہینوں (یعنی حرام مہینوں) کا ادل بدل کفر کے طرزِ عمل میں اضافہ ہے۔ اور اس کے ذریعے کفار اور زیادہ گمراہی میں پڑتے ہیں کہ ایک سال کسی مہینے کو حلال کردیتے ہیں اور دوسرے سال حرام ٹھہرا لیتے ہیں۔ تاکہ (آگے پیچھے کرکے) خدا کے حرام کردہ مہینوں کی فقط گنتی پوری کردیں۔
یقیناً آج زمانہ پھر پھرا کر اسی حالت پر آگیا ہے۔ جو اس وقت تھی۔ جب کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ یعنی اللہ کی بارگاہ میں مہینوں کی تعداد قطعی طور پر بارہ ہے اور جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے یہ تعداد اس کی کتاب (نوشتۂ تقدیر) میں اسی طرح ثبت ہے۔ ان میں چار مہینے حرام ہیں۔
تین متواتر‘ یعنی ذوقعدہ‘ ذی الحجہ اور محرم‘ اور ایک اکیلا الگ‘ یعنی رجب جو جمادی الاُخریٰ اور شعبان کے درمیان ہے۔
آگاہ رہو کہ میں نے بات پہنچا دی اے اللہ تو خود بھی گواہ رہنا!!
اے لوگو! تمہاری خواتین کو تمہارے مقابلے میں کچھ حقوق دئیے گئے ہیں۔ اور تمہیں ان کے مقابلے میں حقوق دئیے گئے ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ تمہاری خواب گاہوں میں تمہارے علاوہ کسی کو نہ آنے دیں اور کسی ایسے شخص کو (گھر میں) تمہاری اجازت کے بغیر داخل نہ ہونے دیں جس کا داخل ہونا تمہیں پسند نہ ہو۔ اور کسی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں۔ اگر وہ کوئی ایسی بات کریں تو تم کو اللہ نے اجازت دی ہے کہ (ان کی اصلاح کے لئے) ان کو جدا کرسکتے ہو۔ خوابگاہوں سے الگ کرسکتے ہو۔ اور ایسی بدنی سزا دے سکتے ہو جو نشان ڈالنے والی نہ ہو۔ پھر اگر وہ باز آجائیں اور تمہاری اطاعت میں چلیں تو قاعدے کے مطابق ان کا نان و نفقہ تمہارے ذمہ ہے۔ یقینا ًخواتین تمہارے زیرنگین ہیں جو اپنے لئےبطور خود کچھ نہیں کرسکتیں۔ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر اپنی رفاقت میں لیا ہے۔ اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے تحت تصرّف میں لیا ہے۔ سو خواتین کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔ اور بھلے طریق سے ان کی تربیت کرو۔
آگاہ رہو کہ میں نے بات پہنچا دی۔ اے اللہ تو خود بھی گواہ رہنا!!
اے لوگو! مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کسی شخص کے لئے اس کے بھائی کا مال (لینا) اس کی رضامندی کے بغیر جائز نہیں!
آگاہ رہو کہ میں نے بات پہنچا دی۔ اے اللہ ! تو خود بھی گواہ رہنا!!سو میرے بعد کہیں (اس اخوّت کو ترک کرکے) پھر کافرانہ ڈھنگ اختیار کرکے ایک دوسرے کی گردنیں نہ کاٹنے لگنا۔
میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ جب تک اس پر کاربند رہو گے کبھی راہ راست سے نہ ہٹو گے۔ وہ ہے اللہ کی کتاب‘‘!!
’’آگاہ رہو کہ میں نے بات پہنچا دی۔ اے اللہ تو خود بھی گواہ رہنا!!اور تم لوگوں سے میرے بارے میںپوچھا جائے گا۔ تو اب تم بتائو کیا کہو گے؟
لوگوں نے پکار کر کہا: ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ نے پیغام پہنچا دیا اُمت کو نصیحت کرنے کا حق ادا کردیا۔ حقیقت سے سارے پردے اٹھا دئیے۔ اور امانتِ الٰہی کو ہم تک کماحقہ‘ پہنچا دیا!‘‘
اے اللہ ! تو گواہ رہنا! اے اللہ تو گواہ رہنا! ! اے اللہ! تو گواہ رہنا!!!
جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ باتیں غیر حاضر لوگوں تک پہنچا دیں۔ ممکن ہے کہ بعض سامعین کے مقابلے میں بعض غیر حاضر لوگ ان باتوں کو زیادہ اچھی طرح یاد رکھیں اور ان کی حفاظت کریں۔
اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر وارث کے لئےحصہ مقرر کردیا ہے۔ اور ایک تہائی مال سے زائد کی وصیّت کرنا جائز نہیں ہے۔
بچہ اس کا جس کے بستر پر (نکاح میں) تولد ہو اور بدکار کے لئے پتھر!!جس نے اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا۔ یا جس غلام نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو آقا ظاہر کیا۔ تو ایسے شخص پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت ہے، اس سے (قیامت کے دن) کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہوگا۔
تم پر اللہ کی طرف سے سلامتی ہو۔ اور اس کی رحمتیں نازل ہوں۔‘‘
آپؐ نے بعد میں منیٰ میں بھی ایک مختصر سا خطبہ دیا تھا اور فرمایا تھا۔ ’’ اے لوگو! میرے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے اور نہ تمہارے بعد کوئی اور اُمت برپا کی جانے والی ہے پس غور سے سنو اور اپنے رب کی عبادت میں لگے رہو۔ نماز پنجگانہ قائم کرتے رہو۔ ماہ رمضان میں روزے رکھو اور اپنے مال کی زکوٰۃ دلی خوشی سے ادا کرتے رہو۔ اپنے رب کے حرم پاک کا حج کرتے رہو اور اپنے (نیک، ایماندار) امراء و حکام کی اطاعت کرو تاکہ اللہ پاک کی جنت میں جگہ حاصل کرسکو‘‘۔ (جاری ہے)
260