اسپین کے شہر ولینسیا میں قیام کے دنوں میں ایک بار کسی دوست کیساتھ اسکے جاننے والے مرید صاحب کے ہاں جانا ہوا۔ چائے پیتے ہوئے وہاں جانے پہچانے ٹائٹل کی ایک کتاب پر نظر پڑی . میرے اٹھانے سے پہلے ہی دوست اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگا۔ جبکہ اس دوران میں اسے اس کتاب کے بارے میں بتاتا رہا۔
جنرل مجید سالک کی لکھی ہوئی اس کتاب کا ٹائٹل تھا “اور میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا” . یہ کتاب میں نے بیلجیئم قیام کے دوران شھاب نامہ کے ہمراہ پاکستان سے منگوائی تھی اور پارسل کی مد میں اچھے خاصے پیسے خرچ ہوئے تھے۔ بیلجئم سے اسپین آتے وقت دونوں کتابیں ہمراہ لایا تھا مگر کسی نے پڑھنے کیلئے لیں اور پھر کبھی واپس نہ مل سکیں۔ میں دوست کو یہ بھی بتا رہا تھا کہ میں جو بھی کتاب خریدتا ہوں اسکے کچھ صفحات پر اپنا نام لکھتا ہوں تاکہ ملکیت کی سند رہے۔
کتاب جیسے ہی میرے ہاتھ میں آئی ، مجھے محسوس ہوا یہ کوئی اور نسخہ نہیں بلکہ میرے والا ہی ہے . کتاب کے اندر کے کم از کم دو صفحات پر میرا نام لکھا پایا گیا جو میں نے اپنے دوست کو دکھایا جبکہ مرید صاحب بھی بخوبی ملاحظہ فرما رہے تھے۔
اپنے قول و فعل سے اتمام حجت قائم کر دینے کے باوجود اخلاقاٌ میں نے کتاب پر اپنا دعوی یا کسی قسم کا مطالبہ کرنا بہتر نہیں سمجھا . مگر صد افسوس ، مرید صاحب کی غیر اخلاقی کسٹڈی میں میری کتاب موجود تھی اور وہ سب سننے اور دیکھنے کے باوجود اتنی اخلاقی جرات یکجا نہ کر پائے کہ غیر اخلاقی قبضہ ترک کر کے میری کتاب میرے سپردِ کر دیتے۔
میرا نہیں خیال کہ کتاب پڑھنے سے انہیں کوئی خاص رغبت رہی ہو گی . بلکہ وہ ان لوگوں میں سے لگتے تھے جو مفت کی کتاب تکیے قریب رکھنا نہیں بھولتے تاکہ جلد نیند کی آغوش میں پہنچنے کیلیے کسی نیند آور گولی کی ضرورت نہ رہے ۔
غیر ملک میں اردو کتابیں لیجانا یا منگوانا آسان کام نہیں . بک لورز ہی خطیر رقم خرچ کر کے اپنے شوق کی تسکین کر سکتے ہیں . ایسے میں بطور تبرک مفت کی کتابیں پڑھنے والے تو بہتیرے مل جاتے ہیں مگر اس طرح قابض بھی ہو جائیں گے ، کبھی سوچا نہیں تھا . ہٹ دھرمی پر مبنی اس رویے کو کیا نام دیں ؟ پچیس سال بعد بھی میں یہ رویہ بھلا نہیں پایا۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Lucida Grande’}