ہر معاشرے کے اپنے رسم ورواج ہوتے ہیں اور لوگوں کو چاہتے نہ چاہتے انہیں فالو کرنا ہوتا ہے۔ سویڈن میں جب لڑکا یا لڑکی تقریباً سولہ سال کے ہوتے ہیں اور کالج میں پڑھنا شروع کردیتے ہیں تو انکا بنک اکاؤنٹ کھل جاتا ہے جہاں حکومت انہیں ماہانہ وظیفہ دینا شروع کر دیتی ہے۔ اٹھارہ سال کے ہونے پر زیادہ تر بچے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر اپنا اپنا کرایہ کا ایک کمرہ والا فلیٹ لے لیتے ہیں۔
تین سالہ کالج کی پڑھائی کے بعد کچھ لوگ عملی زندگی میں آ کر نوکری شروع کردیتے ہیں اور زیادہ تر یونیورسٹی میں اپنی پسند کی پڑھائی شروع کرتے ہیں۔
اٹھارہ سال کے بعد ماں باپ کے گھر رہنے والوں کو ساتھی دوست طعنہ دیتے ہیں کہ یہ کنجوس ہیں اور پیسے بچا رہے ہیں۔ گھر چھوڑنے پر والدین افسردہ بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی کہ انکے بچے اب اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔
سویڈش خاندانوں میں شادی عام طور پر پینتیس چالیس سال کی عمر میں زیادہ میچور اور مالی طور پر مستحکم ہو کر کی جاتی ہے۔ یہاں شادی کا نظریہ ایشیا افریقہ کی نسبت الگ ہے اور کوئی بندہ یا بندی شادی کرے یا اکیلے عمر گزارے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور ویسے بھی یہاں کئی اقسام کی شادیاں ہوتی ہیں جنہیں ہمارے ایشیائی معاشرے اور مذہب اسلام میں غلط سمجھا جاتا ہے۔
باقی یورپ کی طرح سویڈن میں بھی لاکھوں کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اور دن بدن انکی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں ہزاروں مسجدیں ہیں اور مسلمان پاکستان کی طرح یہاں بھی نماز روزہ اور اسلام کے دوسرے اراکین کی ادائیگی آزادی سے کر سکتے ہیں۔ مسلمان خواتین اپنی مرضی کے مطابق گھر سے باہر نکلتے وقت سکارف لینے میں آزاد ہیں۔ مسلمانوں میں سویڈش گوروں کے برعکس بڑے خاندانوں کا رواج ہوتا ہے اور بچے شادی کے بعد ہی ماں باپ کا گھر چھوڑتے ہیں کیونکہ یہاں گھر اتنے بڑے نہیں ہوتے کہ شادیوں کے بعد بھی اکٹھا رہا جاسکے اور ویسے بھی مسلمانوں کے بچے زیادہ ہوتے ہیں اور شادی کے بعد اکٹھا رہنا ممکن نہیں ہوتا۔