خواتین کی جانب سے اپنے حقوق کے لئے کیا گیا ایک احتجاج، اس میں بلند کئے گئے کچھ نعرے اور ان نعروں کے سامنے آنے کے بعد ایک نئی بحث۔ کچھ کے نزدیک عورت مظلوم ہے اور جتنا ظلم وہ برداشت کرتی ہے یہ نعرے تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ کچھ کے نزدیک عورت اپنے حق سے زیادہ کا سوال کررہی ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے عورت کو گھر بیٹھنے کا حکم دیا ہے اس لئے اسے جو حاصل ہے اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کرے اور مزید کسی گمراہی میں گرفتار نہ ہو۔ کچھ کے نزدیک عورت مظلوم تو ہے مگر یہ جو کھانا خود گرم کرلو والی بات ہے یہ عورت ذات پر کچھ اچھی نہیں لگتی۔ اب گھر کا کچن ہوتا ہی عورت کے ہاتھ میں ہے تو کھانا مرد کیسے گرم کرسکتا ہے اور جب ہم مرد حضرات نوکری سے واپس آنے کے بعد بھی باہر کے اتنے کام کرتے ہیں۔ کبھی دہی، کبھی سبزی، کبھی گھر کی کوئی چیز خراب ہونے پر، کبھی خواتین کی زیر استعمال چیزیں لیپ ٹاپ یا موبائیل فون خراب ہونے پر، یا گھر کی خواتین کو بیوٹی پارلر، ان کی سہیلیوں یا رشتہ داروں کے گھر لانے لے جانے والے جیسے بے شمار کاموں کے لئے باہر کے ان گنت چکر لگاتے ہیں تو کیا گھر کی خواتین ہمیں اس مزدوری کے بدلے صرف کھانا بھی گرم کر کے نہیں دے سکتیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قوم کا مسئلہ صرف کھانا گرم کرکے دینا ہے یا کچھ اور بھی ہے؟ میرے نزدیک کھانا گرم کرنا مسئلہ نہیں ہے وہ تو گرم ہو ہی جاتا ہے نہ بھی ہو تو ٹھنڈا بھی کھا لیا جاتا ہے یا باہر سے بھی مل جاتا ہے۔ مسئلہ مزاج کا ہے بس وہ گرم نہ ہو۔ نہ خواتین کی طرف سے نہ مردوں کی طرف سے۔ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے جب تک ایک دوسرے کی محنتوں اور قربانیوں کا احساس نہیں ہوگا یہ نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔ سوال در سوال پھر جواب در جواب آتے رہیں گے۔ کسی بھی رشتہ کے لئے بنیادی اساس ایک دوسرے کا احساس ہوتا ہے، محبت ہوتی ہے اگر وہ قائم نہ رکھی جائے تو پھر مقابلہ شروع ہوجاتا ہے کہ مجھے کھانا گرم کرکے نہیں دیا تو اب اپنا لیپ ٹاب خود جا کر ٹھیک کروالو۔ ہم بحیثیت قوم سائنس اور علمی میدان میں کتنی بھی ترقی کرلیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری قوم میں احساس ناپید ہوتا جارہا ہے۔ اخلاقیات ختم ہوتی جارہی ہیں۔ ایک دوسرے کا احساس اپنی سانسیں کھورہا ہے۔
ہمارے یہاں بحث و مباحثے جاری رہتے ہیں۔ خواتین مردوں پر ظالم ہونے کا الزام لگاتی ہیں اور مرد جوابی طور پر عورت کو ذمہ دار ٹہراتا ہے۔ مگر ایک دوسرے کی محنتوں، قربانیوں کا احساس کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ ہر ایک کو لگتا ہے کہ اس کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ عورت کا یہ شکوہ ہے کہ اسے چاردیواری کا قیدی اور گھر سنبھالنے والی مشین بنا دیا گیا ہے۔ مردوں کا شکوہ یہ ہے خواتین کی بے جا فرمائشوں کو پورا کرنے کے لئے اسے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اور اتنی تھکن کے بعد واپس گھر آکر اسے اگر یہ سننے کو ملے کہ کھانا خود گرم کرلو تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جن کے لئے میں باہر اپنا آپ تندور کرتا ہوں وہ مجھے کھانا تک گرم کر کے نہیں دے سکتے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ باہر جاکر ہی کھا لیا جائے وہاں کسی کو ۵۰ روپے ٹپ کے طور پر دو تو کم سے کم شکر گذار تو ہوگا۔ میرے ایک دوست کنوارے ہیں صاحب غیر شادی شدہ ہوکر بھی ۲ بچوں کے باپ لگتے ہیں کیوںکہ کھانا باہر کھاتے ہیں وجہ یہ ہے خود کو کچن میں جانے کی عادت کبھی رہی نہیں اور امی کی طبیعیت خراب رہتی ہے اس لئے ان سے کھانا مانگنا اچھا نہیں لگتا اور بہنوں کے نخرے برداشت نہیں ہوتے۔ یہ اور بات ہے کہ ان بہنوں کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے وہ بندہ اب تک شادی نہیں کر رہا اور اپنی تنخواہ سے ایک خطیر رقم ان کی شادی کے انتظام کی مد میں ماں کے حوالے کرتا ہے۔
یہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقتیں ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مرد قطعی طور پر مظلوم ہے اور عورت ظالم ہے۔ اسی معاشرے میں خواتین کے ساتھ ظلم و درندگی کی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن کا سن کر ہی روح کانپ جاتی ہے مگر عورت وہ سب اپنے نازک وجود پر جھیلتی ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ تربیت ہے جو گھر سے ملتی ہے اور بدقسمتی سے بچوں کو وہ دینے کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ باپ صبح کا نکلا رات کو گھر میں آتا ہے اور ماں سارا دن بچوں اور گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے میں اس قدر مصروف نظر آتی ہے کہ بچوں کو اچھا، برا سمجھانے کا وقت ہی نہیں بچتا۔ رات کے وقت دونوں میاں بیوی اپنے اپنے دائروں سے حاصل کردہ تھکن کے نتیجے میں ٹوٹ جانے والے بدن جوڑنے کے لئے بستر پر دراز ہوجاتے ہیں تاکہ اگلے دن پھر سے خود کو ٹوٹنے کے قابل کرسکیں۔
یہ ضروریات کا اژدہام رویوں میں اس قدر کڑواہٹ بھر دیتا ہے کہ ایک دوسرے کا وجود بوجھ لگنے لگتا ہے۔ احساس کی کمی، قربانیوں سے صرف نظر اور ایک دوسرے کا عدم احترام تربیت کے وہ فقدان ہیں جو بچپن سے اپنے کاندھوں پر لادے یہ بچے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو ایک دوسرے کے لئے سوائے درد سر کے کچھ نہیں بنتے۔ جو بچی اپنی ماں سے یہ کلیہ لے کر جوان ہوگی کہ مرد ظالم ہے اور ہمیشہ عورت کو دباتا آیا ہے تو معذرت کے ساتھ اس بچی نے رابعہ بصری نہیں بن جانا جو نماز شب سے پہلے اپنے شوہر سے اجازت لے کر اللہ کے حضور حاضر ہوتی تھیں۔ اور نہ وہ بچہ جس نے باپ کو ہمیشہ ماں کی بے عزتی کرتے دیکھا ہو ، کسی قطب، ابدال کے مقام پر فائز نظر آئے گا بلکہ اپنی پوری زندگی عورت کو ایک کھلونے یا مشین سے زیادہ حیثیت نہیں دیے گا۔
آخر میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ ہمارا معاشی و معاشرتی مقام جو ہمیں ماں باپ سے ملتا ہے اسے بہتر بنانے کے لئے ہم خود تگ و دو کرتے ہیں تاکہ ہمارے بچے ایک بہتر زندگی گذار سکیں۔ اپنے ماں باپ کو مطعون نہیں کرتے کہ وہ معاشی و معاشرتی طور پر اس قدر مستحکم کیوں نہیں تھے جس قدر ہم ہیں۔ یہی کوشش ہم ان کی تربیت میں کیوں نہ کریں کہ جو کمی آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں اس کمی کا شکار ہمارے بچے نہ ہوں۔ ہم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو ایک دوسرے کی عزت، خیال، احساس سکھائیں۔ ایک دوسرے کا محتاج بننے سے بچائیں۔ اپنے کام خود کرنے کا عادی بنائیں۔ ان پر اعتماد کریں تاکہ کل ان کو یہ احتجاج اور نعرے نظر نہ آئیں۔ کل کوئی انہیں نہ کہہ سکے کہ کھانا خود گرم کرلو یا لیپ ٹاپ خود ٹھیک کروالو۔