بروکلین نیو یارک کا نواحی علاقہ ہے، یہاں ہر سال ایک انوکھے مقابلے کا انعقاد کیا جاتا ہے. ایک کلب کے زیر اہتمام سب سے چھوٹے آلہ تناسل کا مقابلہ.. اس میں عوام بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں، مقابلے میں حصہ لینے والے افراد مادر زاد ننگ دھڑنگ باری باری سٹیج پر آتے ہیں، ان کے آلہ تناسل کی لمبائی ناپی جاتی ہے، ججز اور عوام جسامت کے حساب سے سب سے چھوٹے آلہ تناسل والے شخص کو فاتح قرار دے دیتے ہیں، پچھلے سال کا فاتح آنے والے نئے فاتح کو آلہ تناسل کی ہی شکل کی ٹرافی بطور انعام پیش کرتا ہے. 2014 میں یہ مقابلہ اٹھائیس سالہ انڈین راج کمار نے جیتا تھا پچھلے سال کے چیمپئن نِک گلرونن نے اسے چمکتا ہوا آلہ تناسل پیش کیا.
خواتین کے مقابلہ حسن کے مقابلے تو مشہور و معروف ہیں، تقریباً تمام ممالک میں ہی لڑکیاں زوق و شوق سے حصہ لیتی ہیں، اپنے اپنے ملک سے جیتنے والی لڑکیاں مس ورلڈ اور مس یونیورس کے مقابلے میں آتی ہیں. ان مقابلوں میں لڑکیوں کی صرف ظاہری حسن اور جسمانی ساخت نہیں دیکھی جاتی بلکہ ذہانت، معلومات عامہ، کامن سینس اور عادات و اطوار بھی دیکھی جاتی ہیں. بلاشبہ یہ ایک سخت مقابلہ ہوتا ہے. اس مقابلے سے دنیا کی بڑی بڑی انڈسٹریز جڑی ہوئی ہیں، فلم انڈسٹری، فیشن انڈسٹری کے ساتھ ساتھ میک اپ سامان بنانے سے لے کر باڈی فٹنس مصنوعات تک بہت کچھ..
لیکن میرے لیے یہ مقابلے کوئی نئی بات نہیں، ہمارے علماء فقہاء ایسے مقابلے صدیوں سے منعقد کرتے آ رہے ہیں. آپ سوچیں گے وہ کیسے؟ زرا ٹھہریں وہ بھی بتاتا ہوں. پہلے صحیح مسلم کی ایک حدیث دیکھتے ہیں. رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے امام بنانے کی شرائط بیان کرتے ہیں ”تم لوگوں کا امام وہ ہونا چاہئے جو اچھی طرح قرآن کی قرأت جانتا ہو۔ اگر قراٌت میں سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرائے جو سنت کو زیادہ جاننے والا ہو، اگر سنت کے علم میں سب برابر ہوں تو جس نے ہجرت پہلے کی ہو وہ امامت کروائے، اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو وہ امام بنے جس نے اسلام پہلے قبول کیا ہو، کوئی آدمی دوسرے آدمی کی جگہ امامت نہ کرائے اور نہ اس کے گھر میں اس کے اپنی بیٹھنے والی جگہ پر بیٹھے مگر اس کی اجازت لے کر”۔ (صحیح مسلم ۱/۴۶۵(۶۷۳)
قارئین آپ نے دیکھا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے امام کے لیے چار شرائط بیان کیں ہیں لیکن ہمارے حنفی حضرات کو رسول اللہ کی بتائی ہوئی چار شرائط قبول نہیں، کہتے ہیں کہ شرائط چار نہیں اکیس ہیں یعنی اپنی طرف سے امامت کی سترہ شرائط مزید بنائیں. امامت کی ان سترہ شرائط میں بہت ہی لایعنی فضول اور مضحکہ خیز شرائط شامل ہیں در مختار میں امامت کے بیان میں امامت کی مختلف شرائط ذکر کرتے ہوئے یہ بھی لکھ مارا کہ امام کی بیوی سب سے حسین ہونی چاہیے، امام کا سر بڑا ہونا چاہیے اور امام کا آلہ تناسل چھوٹا ہونا چاہیے. احناف کی مشہور کتاب حاشیہ طحطاوی دیکھیں لکھتے ہیں.
اذا اجتمع قوم ولم یکن بین الحاضرین صاحب منزل اجتمعوا فیہ … فالأحسن زوجۃ لشدۃ عنقہ فأکبرھم رأسا، وأصغر ھم عضوا فأکثر ھم مالا فأکبرھم جاھا (حاشية الطحطاوی على مراقی الفلاح شرح نور الأیضاح: 164)
یاد رہے کہ یہ دیوبندی بریلوی دونوں کی متفقہ کتابیں ہیں، الدر المختار میں بھی یہی بات لکھی ہے دیکھئے الدر المختار جلد 2 صفحہ 352 باب الامامۃ.
۱- جس کے پاس مال زیادہ ہو۔
۲- جس کی شان و شوکت زیادہ ہو۔
۳- جس کی بیوی زیادہ خوبصورت ہو۔
۴- جس کا سر بڑا اور عضو تناسل چھوٹا ہو۔
بعض علماء کرائم خوبصورت بیوی، بڑے سر اور چھوٹے آلہ تناسل کی تاویل کرتے نظر آتے ہیں جیسا کہ آپ اس پوسٹ کے ساتھ منسلک الیاس گھمن ریسرچوی کی ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں کہ کس قدر بھونڈے طریقے سے فقہ کی ناقابل اشاعت عبارات کا دفاع کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ عضوا کا مطلب جسم کے باقی اعضاء ہیں لیکن میں انہیں اس چور دروازے سے بھی بھاگنے نہیں دوں گا، مولانا الیاس گھمن ریسرچوی صاحب کے پیر و مرشد امام طحطاوی رحمہ اللہ گھمن صاحب کا چور دروازہ خود بند کر گئے ہیں، حاشیہ طحطاوی میں لکھتے ہیں کہ “لمبا پتلا آلہ تناسل شہوت اور حسن خلق کی دلیل ہے جبکہ موٹا لمبا آلہ تناسل گھٹیا طبیعت کمینگی سوءفہم اور خردماغی کی علامت ہے”. اب آپ لوگ برائے مہربانی یہ نہ پوچھ لینا کہ آلہ تناسل کا حسن اخلاق سے کیا کنیکشن ہے، اس سوال کو نظر انداز کیجئے اور آگے بڑھیئے.
اصل سوال تو یہ ہے کہ کیسے پتہ چلے کس کی بیوی خوبصورت ہے اور کس کا آلہ تناسل سب سے چھوٹا ہے؟ اس کے لیے سب سے آسان طریقہ مقابلہ حسن اور مقابلہ تناسل کا انعقاد ہے. جس محلے میں امام رکھنا ہو پہلے وہاں اعلان کردیا جائے “حضرات ایک ضروری اعلان سنئیے، ہماری مسجد میں امام کی تقرری کا مقابلہ ہونے جا رہا ہے، امام بننے کے خواہشمند حضرات کپڑے اتار کر اپنی بیویوں سمیت تشریف لائیں گے اور اہل محلہ فیصلہ کریں گے. یوں سب کو ثواب دارین حاصل ہو گا. اعلان ختم ہوا” یوں اہل محلہ کو انٹرٹینمنٹ بھی میسر آ جائے گی اور امام صاحب کا تقرر بھی ہو جائے گا. لیکن لگتا ایسا ہے کہ احناف نے کافی عرصہ سے خوبصورت بیوی اور چھوٹا عضو چیک کرنا چھوڑا ہوا ہے جبھی تو مدارس و مساجد کے اکثر مولوی ہم جنس پرستی میں مبتلا پائے جاتے ہیں یا پھر حلالے کی خدمات پیش کرتے ہیں. اور کچھ نہ بن پڑے تو گھمن ریسرچوی صاحب کی طرح کوئی سکینڈل بنا لیتے ہیں.
(آخر میں عرض ہے کہ میرا مقصد کسی کی بھی دل آزاری نہیں بلکہ ہماری کتابوں میں موجود ایسی واہیات باتوں کا اخراج ہے. اسلام سے باطل عقائد و نظریات کی تطہیر ہی ہمیں اصل اسلام تک پہنچا سکتی ہے. علماء کرام سے درخواست ہے کہ ایسے حیا سوز مسائل کا دفاع کرنے کی بجائے قرآن اور صحیح حدیث کی طرف رجوع کریں. صحیح مسلم کی حدیث میں بیان کردہ اصول ہی کافی ہیں اپنے خود ساختہ سترہ اصولوں کو اسلام میں داخل کرنے کی کوشش نہ کریں. اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دے آمین ثم آمین)