288

کیا ہم سیاست کے علاوہ کسی موضوع پر بات کر سکتے ہیں ؟

سیاست، سیاست اور سیاست ۔ کیا ہمارے پاس اس چاند ماری کے علاوہ اور کوئی موضوع نہیں جس پر بات کی جا سکے؟ کیا ہمیں احساس ہے ہم کن خوفناک مسائل سے دوچار ہیں؟

پانی کا مسئلہ سب سے اہم ہو چکا ہے ۔اقوام متحدہ کے ادارے UNDP کے مطابق دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بھی بڑا خطرہ یہ ہے کہ وہ پانی کی قلت کا شکار ہو چکا ہے اور یہی حال رہا تو 2025 تک پاکستان خشک ہو جائے گا اور اسے قحط جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ ورلڈ بنک جیسا ادارہ چیخ رہا ہے کہ پاکستان ایک خوفناک صورت حال سے دوچار ہونے جا رہا ہے لیکن ہمارے اپنے ملک میں کسی کو اس معاملے کی سنگینی کا ابھی تک احساس ہی نہیں۔

ارساکا کہنا ہے کہ اس سال بارشیں کم ہوئی ہیں اوربرف بھی کم پڑی ہے اس لیے پاکستان کو پانی کے بحران کا سامنا ہے اور اس سال پاکستان کے پاس معمول سے 40 فیصد کم پانی ہو گا ۔ غور فرمائیے ، معمول سے چالیس فیصد کم ۔ یعنی ہم قریبا اپنے پانی کے آدھے ذخیرے سے محروم ہو گئے اور ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہمارے غازیان دانش اس اہم قومی مسئلے پر قوم کی رہنمائی فرمانے میں لگے ہوئے ہیں کہ ملالہ یوسف زئی غدار ہے یا فخرِ ملت ہے ۔

ہمارے کمالات دیکھیے ، ہم اپنے حصے کے پانی کا صرف 10 فیصد ذخیرہ کر پاتے ہیں ۔ ہمارا 90 فیصد پانی سمندر میں جا کر غرق ہو جاتا ہے ۔ کیا ہمیں معلوم ہے ہمارا جو پانی سمندر میں جا کر غرق ہوتا ہے اس کی مالیت کتنی ہے؟ ارسا کے مطابق ہر سال ہمارا 21 ارب ڈالر مالیت کا پانی ضائع ہو رہا ہے۔ ہم چند ارب ڈالر خرچ کر کے ڈیم نہیں بنائیں گے لیکن ہر سال اکیس ارب ڈالر مالیت کا پانی ضائع کر دیں گے اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوگا ۔

بھارت سے ہمارا پانی پر تنازعہ ہے ۔ وہ نت نئے ڈیم بنا کر ہمارے حصے کے پانی پر ڈاکہ مار رہا ہے۔ اس کے پاس اس وقت قریبا ایک سال تک پانی ذخیرہ رکھنے کی صلاحیت ہے۔ جب ہم صرف تیس دن پانی ذخیرہ رکھ سکتے ہیں۔ ہمارے حصے کے دریا بھی خشک ہو رہے ہیں اور ان کا پانی بھارت استعمال کر رہا ہے۔کسی بین الاقوامی فورم پر ہم آواز اٹھائیں تو بھارت کہتا ہے پاکستان کو مزید پانی کیسے دیا جائے جب کہ وہ اپنے حصے کا 90 فیصد پانی تو سمندر میں غرق کر رہا ہے اور اس کے پاس اسے سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہمارے نمائندے جواب میں ایک دوسرے کا منہ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور جب ورلڈ بنک بھارت کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہے تو ہم اسے ’ یہود و ہنود ‘ کی مشترکہ سازش کا نام دے کر خاموش ہو بیٹھتے ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ارسا کے چیئر مین سے پوچھا پانی کا خاطر خواہ ذخیرہ کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ چیئر مین نے بتایا کہ ہمیں فوری طور پر منگلا ڈیم کے سائز کے تین نئے ڈیم بنانے ہوں گے۔ سااتھ ہی اس نے کہا کہ ابتدائی کام تو سارا ہو چکا ہم چاہیں تو کالا باغ ڈیم صرف پانچ سالوں میں تعمیر ہو سکتا ہے۔ اس پر ہمارے سینیٹر جہانذیب جمال دینی برہم ہو گئے کہ تم نے کالا باغ کا نام کیسے لے لیا ۔ ملک صحرا بننے جا رہا ہے مگر قوم پرستوں نے کا لاباغ ڈیم نہیں بننے دینا ۔

پارلیمان میں آج تک یہ نہیں ہو سکا کہ کالاباغ ڈیم پر ڈھنگ کی ایک بحث ہی کر لی جاتی ۔ قوم پرست قائدین کو بھی بلوا لیا جاتا اور سابق چیئر مین واپڈا شمس الملک سمیت دیگر ماہرین کو بھی ۔ اعتراضات سنے جاتے اور میرٹ پر دیکھا جاتا ڈیم بننا چاہیے یا نہیں ۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی یہ کام اب بھی ہو سکتا ہے ا ور یہ کارروائی پوری قوم کو براہ راست دکھانی چاہیے تا کہ اسے معلوم ہو سکے کالاباغ ڈیم کی مخا لفت کرنے والوں کے دلائل زیادہ طاقتور ہیں یا اس کے حق میں دیے گئے دلائل میں زیادہ وزن ہے۔ لیکن اپنے دائیں بائیں دیکھ لیجیے کیا کسی کو اس بات کا احساس ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمارے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ پارلیمان سے لے کر ٹاک شوز تک جو بحث ہو رہی ہے اس کا ذو ق اور معیار دیکھ کرافسوس ہوتا ہے۔

زیر زمین پانی کی سطح دن بدن نیچے جا رہی ہے ۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق پنجاب کے درجن بھر شہر زیر زمین پانی کے 90 فیصدسے محروم ہو چکے ہیں یا وہ قابل استعمال نہیں رہا ۔ اسلام آباد میں مجھے یاد ہے سیکٹرز کے اندر چشمے ہوا کرتے تھے اب وہ گٹر بن گئے۔ تازہ پانی کی ندیاں تھیں ان میں سیوریج ڈال دی گئی ۔ ورلڈ بنک کے مطابق پانی کی یہ آلودگی پاکستان کو قریبا چھ ارب ڈالر میں پڑ رہی ہے، یعنی جی ڈی پی کا چار فیصد ۔ یونیسف کے مطابق دو تہائی سے زیادہ آبادی آلودہ پانی استعمال کر رہی ہے اور اکنامک سروے 2015- 16 کے مطابق ہر سال اسہال جیسی بیماریوں کی وجہ سے ہمارے اڑھائی لاکھ بچے مر جاتے ہیں ۔ کل بیماریوں کا 80 فیصد آلودہ پانی کی وجہ سے ہے اور ہر سال ہونے والی اموات میں40 فیصد اموات کی وجہ یہی آلودہ پانی ہے۔

تصور کیجیے ہم کن مسائل سے دوچار ہونے جا رہے ہیں لیکن اپنے قومی سیاسی بیانیے کو دیکھیے۔ کیا یہ مسائل کہیں زیر بحث نظر آ رہے ہیں؟ کیا ہم نے آج تک اپنی کوئی ’ واٹر پالیسی ‘ بنائی یا بنانے پر کوئی غور کیا؟ غیر سنجیدہ افتاد طبع کے غولوں کے غول سرشام چینلز پر اپنے اپنے سیاسی قائد کے فضائل و درجات بیان کرنے امڈ پڑتے ہیں لیکن سنجیدہ مسائل پر بات کرنے کی کسی کو فرصت نہیں ۔

دہشت گردی کو دیکھ لیجیے ، اس سے نبٹنے کا کام فوج کے ذمے لگایا گیا لیکن ساتھ ساتھ فکری سطح پر بھی بہت کچھ ناگزیر تھا ۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے کیا کیا؟ نیشنل ایکشن پلان تھا، کیا کسی کو یاد ہے وہ کیا ہوا؟ جناب خورشید ندیم کے ادارہ برائے علم و تحقیق نے اگلے روز پیغام پاکستان کے حوالے سے ایک نشست کا اہتمام کیا تو یاد آیا ایک عدد پیغام پاکستان بھی آیا تھا ۔ بڑا شور مچا تھا کہ نیا فتوی آ گیا ہے ۔ اس پر تمام مکاتیب فکر کے جید علمائے کرام کے دستخط موجود ہیں ۔ اٹھارہ سو علماء کے دستخطوں کے ساتھ یہ فتوی جاری ہوا ، صدر محترم بھی موجود تھے ، دنیا بھر کے سفراء بھی ، اہل علم بھی تشریف فرما تھا اور وفاقی وزراء بھی ۔ ایک تقریب ہوئی اور اس کے بعد کسی کو یاد بھی نہیں کوئی پیغام پاکستان بھی تھا ۔ کسی مذہبی شخصیت نے کبھی اس کا حوالہ دیا نہ ہی حکومت کے کسی وزیر نے کبھی اس کی بات کی۔ایک دستاویز بن کر لائبریری میں سجا لینے کا کیا فائدہ ؟ فائدہ تو تب ہو جب وہ آپ کے رویوں میں بھی ظہور کرے ۔ پیغام پاکستان کے ساتھ بھی وہی حسن سلوک کیا گیا جو نیشنل ایکشن پلان کے ساتھ کیا گیا تھا۔کیا اتنے سنجیدہ معاملے سے اتنی غیر سنجیدگی کے ساتھ نبٹا جا سکتا ہے؟

سوال وہی ہے: کیاسیاست پرچاند ماری کے علاوہ اور کوئی موضوع باقی نہیں بچا جس پر بات کی جا سکے؟ کیا ہمیں کچھ احساس ہے ہم کن خوفناک مسائل سے دوچار ہیں؟

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں