مجھے آج بھی یاد ہے جب میں یہاں جرمنی آئی تھی۔اس وقت میں ان کی زبان سے نابلد مطلب انجان تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب میں گھر سے باہر نکلتی تو یوں لگتا جیسے میں گونگی، بہری یا پھر ان پڑھ ہوں۔ اگر کسی سے انگریزی میں بات کرنا چاہتی تو وہ اس زبان سے پوری طرح واقف ہوتے ہوئے بھی منہ بنا کرگزر جاتے یا بڑی مشکل سے جواب دینے پر راضی ہوتے۔کوئی دوسری زبان بولنا شاید ان کو پسند نہیں۔
گو کہ یہاں یہ بات بھی بھرپور طریقے سے تسلیم کی جاتی ہے کہ ایک سے زیادہ زبانوں کا آنا کسی بھی انسان کے لئے ترقی کی راہیں ہموار کر دیتا ہے۔اسی لئے یہاں کے اسکولوں میں ان میں سے کوئ ایک زبان ساتھ پڑھنا اور سیکھنا ضروری ہے۔ روسی،اتالوی، اسپینش، فرانسیسی، انگریزی وغیرہ وغیرہ۔ اور یہاں تک کہ کچھ اسکولوں میں تو قدیم یونانی زبان تک پڑھائی جاتی ہے۔
لیکن اپنی مادری زبان کو یہاں اس قدر اہمیت دی جاتی ہے کہ انھوں نے اپنے ملک میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے ویزے کا حصول یا اپنے ملک کی شہریت دینے کے لیے جرمن زبان کو سیکھنا اور اس کا ٹیسٹ پاس کرنا ضروری قرار دے دیا ہے (گو کہ جرمن زبان دنیا کی مشکل ترین زبانوں میں سے ایک مانی جاتی ہے) ۔
یہی نہیں بلکہ اب پچھلے کچھ سالوں سے دیگر ممالک سے شادی کر کے یہاں آنے والوں کے لئے ویزہ کا حصول بھی اس شرط پر ہی ممکن ہے کہ جب یہاں کی جرمن زبان کا پہلا لیول اپنے اپنے ملک میں سیکھ کر اس کا امتحان پاس کر لیا جائے۔
قومیں کبھی دوسروں کی تہذیب و ثقافت یا زبان اپنا کرترقی نہیں کر سکتیں۔ بلکہ اس کے لیے انھیں اپنی ہی اقدار و روایات اور زبانوں کو سر آنکھوں پر بٹھانا پڑتا ہے ۔