حضرت عمرؓ کے ایک واقعہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی ریاست کے امیر کی حدود مداخلت کیا ہیں اور شہری کو اس مداخلت سے کتنا تحفظ حاصل ہے۔
ایک مرتبہ آپؓ نے ایک شخص کی آواز سنی جو گھر میں گانا رہاتھا۔آپؓ کو شک گزرا اور دیوار پر چڑھ گئے۔دیکھا وہاں شراب بھی موجود ہے اور عورت بھی۔آپؓ نے پکار کر کہا۔
’’اے دشمن خدا!تو کیا سمجھتا ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی کرے گا۔ اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا۔‘‘
اس نے جواب دیا ’’امیر المومنین!جلدی نہ کیجیے۔اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپؓ نے تین گناہ کیے ہیں۔اللہ نے تجسس سے منع کیا ہے اور آپؓ نے تجسس کیا ہے۔اللہ نے حکم دیا ہے کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔اور آپ دیوار پر چڑھ کر آئے۔اللہ نے حکم دیا ہے کہ دوسروں کے گھروں میں اجازت کے بغیر نہ جاؤ۔آپ اجازت کے بغیر میرے گھر میں تشریف لے آئے۔‘‘یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔البتہ اس سے وعدہ لیا کہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے گا۔
361