282

آگاہی مہم “حق حقدار تک” اور میری معروضات…

خیرات میں سب سے آگے پاکستانی قوم جہاں بے شمار ہسپتال ڈسپنسریاں سکول و مدارس غریب عوام کی خدمت کرنے کیلیے مخیر حضرات کے عطیات پر انحصار کرتے ہیں اور یوں ریاستی شراکت کاری کے بغیر ایک کار عظیم سر انجام دے رہے ہیں . یہ سب تو یقیناً قابل تحسین و توصیف ہے مگر غلط تب ہوتا ہے جب ان خیراتی اداروں کی آڑ میں کچھ مشکوک ریاست دشمن عناصر بھی لوگوں سے عطیات لے اڑتے ہیں . مبینہ طور پر یہ رقم دھشتگرددانہ کاروائیوں میں استعمال ہو سکتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق عطیہ شدہ ہر تین روپوں میں سے ایک روپیہ یہ ممنوعہ ملک دشمن عناصر اینٹھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں . بتایا جاتا ہیکہ پاکستان بھر میں خیرات و صدقات اور زکواۃ کا کل سالانہ حجم ساڑھے پانچ سو ارب روپے سے زائد ہے . جبکہ اسکا تیسرا حصہ یعنی تقریباً ایک سو پچاسی ارب روپے مبینہ طور پر مشکوک دھشتگرد عناصر کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جسے روکنا بہت ضروری ہے۔

اس مقصد کے حصول کیلیے وزارت اطلاعات و نشریات نے ایک پرائیویٹ کمپنی مائیما کوم کے اشتراک سے “محفوظ خیرات” کیلیے “حق حقدار تک” کے عنوان سے ایک آگاہی مہم کا اجراء کیا ہے۔

اسی آگاہی مہم کے سلسلے میں وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات اور ملتان چیمبر آف کامرس کے باہم اشتراک سے چیمبر میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جسکی صدارت چیمبر کے وائس پریذیڈنٹ خواجہ فاروق نے کی . سیمینار میں وزارت کی مہم “حق حقدار تک” پر پریزینٹیشن دینے کیلیے اس مہم کی ملتان ٹیم کے پروجیکٹ مینیجر نبیل امتیاز خصوصی طور پر اسلام آباد سے ملتان آئے ہوئے تھے۔

خواجہ فاروق نے ٹیم اور مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور مہم ٹیم کو انکی مہم سے متعلق کسی بھی مطلوبہ راہنمائی کے سلسلہ میں تعاون کا یقین دلایا . انہوں نے تجویز دی کہ آگاہی مہم کا دائرہ کار تاجران تک وسیع کیا جائے اور فیسبک کے ساتھ ساتھ وھاٹس ایپ سے بھر پور استفادہ حاصل کیا جائے۔

نبیل امتیاز کا ادارہ مائیما کوم جس کے نبیل چیف آپریٹنگ آفیسر بھی ہیں ، وزارت اطلاعات و نشریات کے اشتراک کار سے اس مہم کو عوام میں روشناس کرانے کیلیے اہم کردار ادا کر رہا ہے . نبیل امتیاز نے پروجیکٹر سلائیڈز کی مدد سے مہم کی جزئیات پر روشنی ڈالی اور پاکستان میں خیراتی رقوم کے حوالے سے ریسرچ پر گفتگو کی اور شرکاء کو اس مہم سے متعلق زبردست آگاہی دی۔

ٹیم ڈائریکٹر نے پی ٹی وی پر آنے والی دو پبلسٹی ایڈ کے کلپس دکھائے تو شرکاء نے کہا کہ صرف پی ٹی وی کی بجائے دیگر مین سٹریم میڈیا چینلز پر انکا دکھایا جانا مہم کی کامیابی کیلیے ضروری ہے ۔ نبیل امتیاز نے کہا کہ عوام کو چاہیے کہ اپنے صدقات و زکواۃ نقد رقم کی بجائے چیک کی صورت میں دیں تاکہ اکاؤنٹ کے حامل حقدار ادارے ہی ان رقومات تک رسائی پا سکیں نیز یہ کہ ان عطیات کا ریکارڈ بھی رہے۔

انہوں نے کہا کہ رقومات دینے سے قبل اداروں کے کوائف طلب کریں اور اچھی طرح پڑتال کریں اور کسی بھی قسم کے شک کی صورت میں قریبی پولیس اسٹیشن پر رابطہ کریں یا اینٹی ٹیررازم ہیلپ لائن 1717 پر کال کریں . کال کرنے والے حضرات کی شناخت کو صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ مزید برآں کوائف کی طویل فہرست عوام کو تھمائی جا رہی ہے جن کی پڑتال کرنے کا عوام کو کہا جا رہا ہے ، یہ سب عام لوگوں کیلیے یقیناً بڑی کوفت کا باعث ہو گا۔

بعدازاں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے نبیل امتیاز نے کہا کہ سبزی اور فروٹ کو اچھی طرح دیکھ بھال کر لینے والے لوگ آخر زکوٰۃ دیتے وقت اتنا تردد کیوں نہیں کرتے . یہ کیوں سوچتے ہیں کہ دینا تھا بس دیدیا ، ہمیں تو ثواب ملے گا . اس سوچ کو ترک کریں ورنہ زکواۃ و صدقات بھی آپ کیلیے کسی مسئلے کا باعث بن سکتے ہیں . وہ یوں کہ اینٹی ٹیررازم ایکٹ H11/1997 کے مطابق کوئی بھی فرد جو جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر ممنوعہ تنظیمات کو عطیات دے گا وہ فرد عدالت کی نظر میں ٹرائل کا زمہ دار ہو گا . قانون سے اسکی لاعلمی پر کوئی رعایت نہ ہو گی۔

رمضان کی آمد آمد ہے . نیکیوں ، صدقات و خیرات کا موسم چھا جانے کو ہے . ایسے میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی کمائی سے صرف ہونے والی رقم صرف حقداروں تک پہنچے . دھشتگرد یا کالعدم تنظیمیں آپکے عطیات قطعاً نہ لے اڑیں۔ عطیہ دہندگان کیلیے احتیاط لازم ہے . بصورت دیگر کوئی عزر قابل قبول نہ ہو گا۔

اس موقع پر سوشل ایکٹیوسٹ ملک سجاد نے کہا کہ اپنے قرب و جوار میں نظر دوڑائیں . شاید وہاں کوئی رشتہ دار یا ھمسائیہ ہو جو آپکی زکوٰۃ اور آپکی مدد کا زیادہ مستحق ھو۔

چیمبر کے سینئر ممبر اور ایونٹ کے میزبان ملک ربنواز نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے چیمبر کے ممبران اور سیمینار کے دیگر شرکاء پر زور دیا کہ وزارت کی مہم کے عین مطابق عطیات صرف حقداروں کو دیئے جائیں . اور یہ امر یقینی بنایا جائے کہ ممبران کے عطیات ممنوعہ لوگوں کو نہ پہنچ پائیں۔ دیگر مدعوئین نے کہا کہ ممنوعہ تنظیمات کی واضح فہرست مشتہر کیجائے تاکہ عوام کو غیر ضروری تکلیف میں نہ الجھایا جائے۔

راقم اس آگاہی مہم کی ستائش کرتا ہے مگر یہ بھی سمجھتا ہیکہ ریاست کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ اس مہم کا مقصد اغیار کو بس مطمئن کرنا ہے یا واقعی عمل بھی مطلوب ہے . اگر لیٹر اینڈ سپرٹ میں کچھ کرنا مقصود ہے تو ریاست کے تمام اداروں کو ایک پیج پر ہونا ضروری ہے ورنہ اس مہنگی مشق کا کوئی فائدہ نہ ہو گا . ایکٹ کا اطلاق صرف عطیات دینے والے پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ کمشنر اور آر پی او کو بھی خیراتی اداروں کے بھیس میں موجود دھشتگردوں پر نظر رکھنا ہو گی۔

خداترس چندہ دہندگان کے سروں پر ایکٹ کیصورت میں بیجا لٹکتی برہنہ شمشیر نہ غرباء کیلیے بہتر ہے نہ ہی ریاست کیلیے . بوجہ خوف لوگ عطیات دینا ترک کر دیں تو کیا ریاست کے پاس متبادل کی استعداد ہے ؟ قطعاً نہیں . ریاست غربت کے اژدہام کو اکیلی نہیں پال سکتی . مگر ممنوعہ تنظیموں پر نظر رکھنے کا کام ریاستی مشنریاں بخوبی کر سکتی ہے . لہذا خوامخواہ کی جھنجھٹ سے سیدھی عوام کو حتی المقدور دور رکھا جائے اور سرکاری اداروں کو مستعد کیا جائے .

میری ذاتی رائے تو ہیکہ اقرباء کیبعد حصولِ زکواۃ کے جائز حقدار صرف مدارس ہی ہونے چاہئیں . کیونکہ زکواۃ ایک مذہبی فریضہ ہے اور مذہبی اکابرین ہی اسکی بھرپور ترغیبات دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ صدقہ و خیرات کی بھی عوام الناس کو تلقین کرتے ہیں . نیز یہ کہ اگر علماء نہ ہوں تو زکواۃ دینے والے ڈھونڈھے بھی نہ ملیں گے . لہذا کم از کم زکواۃ جیسے اسلام کے ستون اور مسلمانوں کے مذہبی فریضے کو اقرباء کیبعد اسلام کے قلعوں یعنی مدارس کے لیے مخصوص کر دینا یقیناً مستحسن اقدام ہو گا۔

یاد رہے کہ روایتی طور پر ایسا ہی ہوتا آیا ہے مگر جب سے کچھ ہسپتال اور دیگر ادارے زکواۃ کے مال میں حصہ دار بننے کی دوڑ میں شامل ہوئے ہیں ، مدارس کے طلباء کیلیے اکثر گندم اور کپڑوں کیلیے مطلوب سرمایہ ہوتا ہے نہ ہی اساتذہ کی تنخواہوں کا کوئی پرسان حال ہوتا ہے . ہسپتال و عصری تعلیمی ادارے محصولینِ زکوۃ کی فہرست سے باہر ہونے چاہئیں تاکہ مدارس مذہبی تعلیم کیساتھ غریب طلباء کی خوراک رہائش لباس اور دوسرے مصارف کیلیے مناسب رقومات یکجا کر سکیں . تاہم صدقہ و خیرات کی آپشن دیگر اداروں کے لیے بھی کھلی رکھی جا سکتی ہیں . محصولین زکواۃ کی فہرست میں ریاست کے منظور شدہ ایسے مدارس شامل ہونے چاہئیں جو با امن بقائے باہمی کے اصولوں پر کاربند ہوں اور کسی بھی قسم کی منافرت سے اجتناب کرتے ہوں۔

اہل مغرب کو باور کرانے کی ضرورت ہیکہ مدارس ہماری این جی اوز ہیں جو وسائل سے محروم ریاست کے زمہ کا کام خوش اسلوبی سے جاری رکھے ہوئے ہیں . انکے فارغ التحصیل کبھی بیروزگار ہوتے ہیں نہ فراڈ میں ملوث ہوتے ہیں اور نہ ہی کبھی حالات سے مایوس ہوتے ہیں . لہذا ان پر پابندیوں کیلیے تھنک ٹینک ، مباحثے اور بے جا دباؤ غیر ضروری ہیں۔

عوام چاہتے ہیں کہ وہ جب عطیات دیں تو انکا نام صیغہ راز میں رہے . نام خفیہ نہ رکھ سکنے اور مذکورہ ایکٹ کیصورت میں لٹکتی ننگی تلوار جیسی ہر ایک صورت میں عوام کے پاس صرف دو آسان آپشنز رہ جاتے ہیں . یا تو وہ چندہ و عطیات دینا سرے سے ترک کر دیں یا گمنامی میں چندے والے صندوق بھر دیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں